الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
13. باب حُجَّةِ مَنْ قَالَ لاَ يَجْهَرُ بِالْبَسْمَلَةِ:
13. باب: بسم اللہ کو بلند آواز سے نہ پڑھنے والوں کی دلیل۔
حدیث نمبر: 890
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار كلاهما، عن غندر ، قال ابن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة ، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس ، قال: " صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر، وعثمان، فلم اسمع احدا منهم يقرا: بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1 ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ كِلَاهُمَا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقْرَأُ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 ".
ہم سے محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا: میں نے قتادہ کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے سنا، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیں سنا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے ان میں سے کسی سے بلند آواز میں ﴿بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ﴾ کی قراءت نہیں سنی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 399

   صحيح البخاري743أنس بن مالكيفتتحون الصلاة ب الحمد لله رب العالمين
   صحيح مسلم890أنس بن مالكصليت مع رسول الله وأبي بكر وعمر وعثمان فلم أسمع أحدا منهم يقرأ بسم الله الرحمن الرحيم
   صحيح مسلم892أنس بن مالكيستفتحون ب الحمد لله رب العالمين لا يذكرون بسم الله الرحمن الرحيم في أول قراءة ولا في آخرها
   جامع الترمذي246أنس بن مالكيفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   سنن أبي داود782أنس بن مالكيفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   سنن النسائى الصغرى904أنس بن مالكافتتحوا ب الحمد لله رب العالمين
   سنن النسائى الصغرى903أنس بن مالكيستفتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   سنن النسائى الصغرى907أنس بن مالكلم يسمعنا قراءة بسم الله الرحمن الرحيم
   سنن النسائى الصغرى908أنس بن مالكصليت خلف رسول الله وأبي بكر وعمر وعثمان م فلم أسمع أحدا منهم يجهر ب بسم الله الرحمن الرحيم
   سنن ابن ماجه813أنس بن مالكيفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   بلوغ المرام219أنس بن مالكان النبي وابا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين
   مسندالحميدي1233أنس بن مالككان النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، وعمر، وعثمان يفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 219  
´نماز میں سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز`
«. . . وعن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم وابا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين . . .»
. . . حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب نماز کا آغاز «الحمد لله رب العالمين» سے کرتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 219]

لغوی تشریح:
«لَا يَذْكُرُونَ بِسْمِ اللهِ» بسم اللہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ یہ فقرہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مطلقاً بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہ تو صرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ کو جہری (بآواز بلند) نہیں پڑھتے تھے۔
«يُسِرُّوْنَ» «إسرار» سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بسم اللہ بغیر آواز نکالے آہستہ آہستہ پڑھتے تھے۔
«وَعَلٰي هٰذَا» بسم اللہ کو بے آواز، یعنی سراً پڑھنے پر۔
«يُحْمَلُ» صیغہ مجہول۔ محمول کیا جائے گا۔
«النَّفْيُ» بسم اللہ کی نفی کو۔
«فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ» مسلم کی وہ روایت جو ابھی بیان کی گئی ہے۔
«خِلَافًا لِمَنْ أَعَلَّهَا» یعنی جو شخص یہ کہتا ہے کہ صحیح مسلم میں بسم اللہ کی نفی کا جو اضافہ ہے یہ معلول ہے، وہ اس (سراً بسم اللہ پڑھنے والی) توجیہ کی مخالفت کرتا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے کہ نفی کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، تاہم یہ روایت معلول ہو گی۔ لیکن اس بات کے ذریعے سے اس حدیث کے معلول ہونے کی دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ علت دراصل یہ ہے کہ امام اوزاعی نے یہ اضافہ قتادہ کے واسطے سے مکا تبتاً نقل کیا ہے، حالانکہ یہ علت درست نہیں کیونکہ اوزاعی اس کے روایت کرنے میں تنہا نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی اس کو روایت کرنے والے ہیں جن کی روایت صحیح ہے، لہٰذا نفی کی وہ تاویل صحیح ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ [تحفة الأحوذي: 204/1]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز کرتے اور بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔
➋ بعض روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا بھی ثبوت ہے، اس لیے بسم اللہ کو آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، تاہم اکثر اور زیادہ صحیح روایات کی رو سے آہستہ پڑھنا ہی ثابت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 219   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 903  
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 903]
903 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ثابت ہوا کہ ہر رکعت میں قرأت کی ابتدا سورۂ فاتحہ سے ہو گی کیونکہ یہ نماز میں فرض ہے۔ یہ دوسری قرأت کی جگہ کفایت کر سکتی ہے۔ کوئی اور سورت اس کی جگہ کفایت نہیں کرے گی (جیسے فرض نماز کی آخری ایک یا دو رکعتیں)۔
➋ اس روایت سے «بسم الله الرحمن الرحيم» بلند آواز سے یا مطلقاً نہ پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے مگر یہ استدلال قوی نہیں کیونکہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کے نام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری، حدیث: 506، میں ہے۔ اور «بسم الله الرحمن الرحيم» چونکہ فاتحہ کا جز ہے، اس لیے وہ ضرور پڑھی جائے گی، نیز یہ حدیث «بسم الله الرحمن الرحيم» کے آہستہ پڑھنے کے تو قطعاً منافی نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل «بسم الله الرحمن الرحيم» کو آہستہ پڑھنے کا ہے اور «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے آپ بلند آواز سے قرأت شروع فرماتے، لہٰذا مالکیہ کا «بسم الله الرحمن الرحيم» کو مطلقاً نہ پڑھنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 903   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 904  
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی تو ان لوگوں نے «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کی۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 904]
904 ۔ اردو حاشیہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ سب «بسم الله الرحمن الرحيم» آہستہ پڑھتے تھے۔ اسی سے استدلال کیا گیا ہے کہ «بسم الله» کا آہستہ پڑھنا افضل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 904   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 246  
´الحمدللہ رب العالمین سے قرأت شروع کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم «الحمد لله رب العالمين‏» سے قرأت شروع کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 246]
اردو حاشہ:
1؎:
جو لوگ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾  کے جہر کے قائل نہیں ہیں وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ،
ابوبکر،
عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم سبھی قرأت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے شروع کرتے تھے،
اور جہر کے قائلین اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے مراد سورہ فاتحہ ہے نہ کہ خاص یہ الفاظ،
حدیث کامطلب ہے کہ یہ لوگ قرأت کی ابتدا سورہ فاتحہ سے کرتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 246   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 890  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین عام طور پر ﴿ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ آہستہ آواز سے پڑھتے تھے شوافع نے اس حدیث کے مختلف معانی بیان کیے ہیں اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کے نزدیک بسملہ سورہ فاتحہ کا جز ہے اس لیے جب سورۃ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے تو اس کو بھی بلند آواز سے پڑھنا چاہے اور سنن دارقطنی اور سنن بیہقی کی روایت ہے:
(عَن أَبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَال:
قَالَ رَسُولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم:
«إِذَا قَرَأْتُمُ «الْحَمْدُ للهِ» فَاقْرَءُوا ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ ) (الحدیث)
لیکن اس روایت میں بسملہ کا فاتحہ کا جزو ہونا ثابت ہوتا ہے اور بلند سے قرآءت کرنا ثابت نہیں ہوتا۔
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اس کو دونوں طرح پڑھنا صحیح ہے۔
(اس مختصر میں دلائل دینے کی گنجائش نہیں ہے)
تفصیل کے لیے مولانا میر سیالکوٹی کی واضح البیان دیکھئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 890   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.