الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز خوف کا بیان
The Book of Salat-Ul-Khauf (Fear Prayer).
5. بَابُ صَلاَةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً:
5. باب: جو دشمن کے پیچھے لگا ہو یا دشمن اس کے پیچھے لگا ہو وہ سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز پڑھ لے۔
(5) Chapter. The chaser and the chased can offer SaIat (prayer) while riding, and by signs.
حدیث نمبر: Q946
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال الوليد ذكرت للاوزاعي صلاة شرحبيل بن السمط واصحابه على ظهر الدابة، فقال: كذلك الامر عندنا إذا تخوف الفوت واحتج الوليد بقول النبي صلى الله عليه وسلم لا يصلين احد العصر إلا في بني قريظة.وَقَالَ الْوَلِيدُ ذَكَرْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ صَلَاةَ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ وَأَصْحَابِهِ عَلَى ظَهْرِ الدَّابَّةِ، فَقَالَ: كَذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا إِذَا تُخُوِّفَ الْفَوْتُ وَاحْتَجَّ الْوَلِيدُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ.
اور ولید بن مسلم نے کہا میں نے امام اوزاعی سے شرحبیل بن سمط اور ان کے ساتھیوں کی نماز کا ذکر کیا کہ انہوں نے سواری پر ہی نماز پڑھ لی، تو انہوں نے کہا ہمارا بھی یہی مذہب ہے جب نماز قضاء ہونے کا ڈر ہو۔ اور ولید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اشارے سے دلیل لی کہ کوئی تم میں سے عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر۔

حدیث نمبر: 946
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد بن اسماء، قال: حدثنا جويرية، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الاحزاب:" لا يصلين احد العصر إلا في بني قريظة"، فادرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى ناتيها، وقال بعضهم: بل نصلي لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف واحدا منهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا لَمَّا رَجَعَ مِنْ الْأَحْزَابِ:" لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ"، فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمُ الْعَصْرُ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ.
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے (ابوسفیان لوٹے) تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضاء کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔

Narrated Ibn `Umar:When the Prophet (saws) returned from the battle of Al-Ahzab (The confederates), he said to us, "None should offer the 'Asr prayer but at Bani Quraiza." The 'Asr prayer became due for some of them on the way. Some of them decided not to offer the Salat but at Bani Quraiza while others decided to offer the Salat on the spot and said that the intention of the Prophet (saws) was not what the former party had understood. And when that was told to the Prophet (saws) he did not blame anyone of them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 14, Number 67


   صحيح البخاري4028عبد الله بن عمرأجلى يهود المدينة كلهم بني قينقاع وهم رهط عبد الله بن سلام ويهود بني حارثة وكل يهود المدينة
   صحيح البخاري4119عبد الله بن عمرلا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة فأدرك بعضهم العصر في الطريق فقال بعضهم لا نصلي حتى نأتيها وقال بعضهم بل نصلي لم يرد منا ذلك فذكر ذلك للنبي فلم يعنف واحدا منهم
   صحيح البخاري946عبد الله بن عمرلا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة
   صحيح مسلم4602عبد الله بن عمرلا يصلين أحد الظهر إلا في بني قريظة فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بني قريظة وقال آخرون لا نصلي إلا حيث أمرنا رسول الله وإن فاتنا الوقت قال فما عنف واحدا من الفريقين
   صحيح مسلم4592عبد الله بن عمرأجلى رسول الله بني النضير وأقر قريظة ومن عليهم حتى حاربت قريظة بعد ذلك فقتل رجالهم وقسم نساءهم وأولادهم وأموالهم بين المسلمين إلا أن بعضهم لحقوا برسول الله فآمنهم وأسلموا وأجلى رسول الله يهود المدي
   سنن أبي داود3005عبد الله بن عمرأجلى رسول الله بني النضير وأقر قريظة ومن عليهم حتى حاربت قريظة بعد ذلك فقتل رجالهم وقسم نساءهم وأولادهم وأموالهم بين المسلمين إلا بعضهم لحقوا برسول الله فأمنهم وأسلموا وأجلى رسول ا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 946  
´سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز`
«. . . لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب صَلَاةِ الْخَوْفِ: 946]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے مطلوب جس کی تلاشی میں دشمن لگا ہو یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہو گیا اور کفار ناکام چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اسی حالت میں چلیں جہاں مدینے کے یہودی رہتے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا مگر خفیہ طور پر پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اور اس موقع پر انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا، یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہو گی اور مسلمانوں کو اس میں شکست ہو گی، معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنوقریظہ میں جا کر پڑھی جائے، لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ آپ نماز بنوقریظہ میں جا کر پڑھیں کیوں کہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہرتے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف جلد سے جلد بنوقریظہ میں پہنچنا تھا اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے ادا کر سکتے ہیں، یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ثابت ہوتی ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ان مطلوب يصلي على دابة يومئي ايماء، وان كان طالبًا نزل فصلي على الارض، قال الشافعي: إلا أن ينقطع عن اصحابه فيخاف عود المطلوب عليه فيجزئه ذالك .» [فتح الباري ج2 ص555]
یقیناً مطلوب (جس کی تلاش میں دشمن لگا ہوا ہو) وہ سواری پر ہی اشارے سے نماز ادا کرے اور اگر وہ طالب (دشمن کے پیچھے لگنے والا) ہو تو وہ سواری سے اتر کر زمین پر نماز ادا کرے اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر طالب کو اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جانے کا خوف ہو یا دشمن کے پیچھے پلٹ آنے کا تو اس حالت میں اسے بھی سواری پر نماز ادا کرنا جائز ہے۔‏‏‏‏
لہٰذا حافظ صاحب کی صراحت سے واضح ہوتا ہے کہ بحالت مجبوری سواری پر اشارے سے نماز ادا کرنا صحیح ہے جیسا کہ حدیث اور باب سے واضح ہے۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«موضع المطابقة من تاخير احدي الطائفين للصلاة إلى أن غابت الشمس، ووصلوا إلى بني قريظة، فلما جاز لها أن توخر عن الوقت والصلاة فى الوقت مفترضة، وكذالك يجوز ترك اتمام الاركان والانتقال إلى الايماء» [المتواري ص114]
یہاں مطابقت کی صورت یہ ہے کہ دونوں گروہ کا نماز میں تاخیر کرنا (ثابت ہوتا ہے) یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور ان کو بنوقریظہ تک پہنچا جائے۔ پس جب ان کے لیے نماز کو مقررہ وقت سے تاخیر کرنا جائز ہوا تو اسی طرح سے قیام کا ترک کرنا اور اشارے سے نماز پڑھنا (بھی جائز ہوا)۔
ابن المنیر رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ جب ارکان اور وقت کی چھوٹ مل سکتی ہے تو لازماً بحالت مجبوری اشارے سے صلاۃ پڑھنا بھی جائز ہوا (جیسا کہ پیچھے اور اق میں ہم نے تفصیلاً ذکر کیا ہے) لہٰذا اس سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذہب کو بھی تقویت ملے گی۔

فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ میں نماز عصر پڑھنے کا حکم دیا تھا یا نماز ظہر؟
بخاری و مسلم کی بعض احادیث میں ظہر کی نماز کا حکم ہے اور بعض احادیث میں نماز نماز عصر کا حکم ہے، منکرین حدیث اس نکتے کو بھی بخشتے نہیں اور وہ بےجا احادیث صحیحہ پر طعن کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت کو جنم دیتے ہیں حالانکہ تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان احادیث میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ دونوں روایتوں میں بایں طور کہ احتمال ہے کہ حکم کرنے سے قبل بعض نے ظہر کی نماز پڑھ لی ہو اور بعض نے نہ پڑھی ہو تو ان کو ظہر کا حکم ملا اور دوسرے گروہ کو عصر کی نماز کا حکم ملا جس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ اب یہاں چار باتیں قابل غور ہیں۔
➊ ظہر کی نماز کا حکم بنوقریظہ میں پڑھنے کا تھا۔
➋ یا عصر کی نماز کا حکم بنوقریظہ میں پڑھنے کا تھا۔
➌ یا پھر کسی راوی نے عصر کی جگہ ظہر کہہ دیا اپنی یاد داشت کی وجہ سے۔
➍ یا پھر دو گروہ تھے ایک کو ظہر کا حکم اور دوسرے کو عصر کا حکم۔
اب ہم ان چاروں نکات پر غور کریں گے۔

ظہر کی نماز بنوقریظہ میں:
ظہر کی نماز کا ذکر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب الجھاد والسیر میں ذکر فرمایا ہے:
«أن لا يصلين أحد الظهر اِلا فى بني قريظة» [صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، رقم الحديث: 1770]
یعنی آپ میں سے کوئی ظہر ادا نہیں کرے گا مگر بنوقریظہ میں جا کر۔


◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ووقع فى جميع النسخ عند مسلم الظهر . . . . . . وقد وافق مسلماً أبويعلي وآخرون، وكذالك أخرجه ابن سعد عن ابي عتبان مالك بن اسمٰعيل عن جويرية بلفظ الظهر وابن حبان من طريق ابي عتبان كذالك، ولم أره من رواية جويرية اِلا بلفظ الظهر» [فتح الباري ج6 ص519]
تمام مسلم کے نسخوں میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے اور یقیناً امام مسلم کی موافقت کی ہے ابویعلیٰ اور دوسروں نے، اور اسی طرح سے ابن سعد نے ابوعتبان مالک بن اسمعیل عن جویریہ سے لفظ ظہر کا ذکر کیا ہے اور ابن حبان نے بطریق ابی عتبان سے اسی طرح (لفظ ظہر ہی) نقل کیا ہے اور میں نہیں دیکھتا جویریہ سے کوئی لفظ مگر ظہر ہی کا۔

عصر کی نماز کا حکم بنوقریظہ میں:
عصر کی نماز کا حکم صحیح البخاری میں موجود ہے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ظہر کی نماز کا ذکر امام مسلم نے فرمایا اور عصر کی نماز کا حکم امام بخاری رحمہ اللہ نے۔ [شرح صحيح مسلم النووي ج12 ص97]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا يصلين أحد العصر كذا وقع فى جميع النسخ عند البخاري» [فتح الباري ج6 ص519]
کہ آپ نماز عصر بنوقریظہ میں پڑھیں یہ الفاظ بخاری کے تمام نسخوں میں ہیں۔‏‏‏‏

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
«واما اصحاب المغازي فاتفقوا على انها العصر» [فتح الباري ج6 ص519]
تمام اصحاب مغازی اس بات پر متفق ہیں کہ وہ نماز عصر تھی۔

نماز عصر کا ذکر صحیح البخاری کے علاوہ اور بھی کتب احادیث میں موجود ہے امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفي 408ھ) اپنی کتاب میں ذکر فرماتے ہیں:
«عبدالله بن كعب رضى الله عنه اخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رجع من طلب الاحزاب وضع عنه الأمة واغتسل، واستجمر فبداله جبريل عليه السلام فقال من ترك من محارب الا أراك قد وضعت اللامة وما وضعناها بعد قال فوثب رسول الله صلى الله عليه وسلم فزعًا، فعزم على الناس الا يصلوا صلاة العصر حتيٰ ياتوا بني قريظة» [دلائل النبوة للبيهقي ج4 ص7]
سیدنا عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے احزاب کی طلب اور تعاقب سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار دیئے اور غسل بھی کر لیا تھا اور خوشبو کی دھونی بھی لے لی تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جبریل علیہ السلام آ گئے اور فرمایا کس نے آپ کو جنگ اور محاربہ پر سے روک دیا ہے؟ کیا میں دیکھ نہیں رہا کہ آپ نے ہتھیار اتار رکھ لیے ہیں جب کہ ہم نے ابھی تک نہیں اتار رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا گئے اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کا حکم دیا کہ وہ نماز عصر یہاں پر نہ پڑھیں یہاں تک کہ وہ بنی قریظہ پہنچ جائیں۔
مذکورہ روایت میں بھی صلاۃ العصر ہی کا ذکر موجود ہے اس روایت کو امام طبرانی نے اور امام ابن کثیر نے اپنی کتاب البداية والنهاية ج4 ص117 میں ذکر فرمائی ہے اور امام ابونعیم المستخرج میں بطریق «ابوحفص السلمي عن جويريه» سے نماز عصر کا ذکر فرمایا ہے۔ [فتح الباري ج6 ص519]
لہٰذا نماز عصر کا حکم صحیح بخاری میں موجود ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق راوی سے وہم ہوا ہے، کیونکہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی احادیث کا مخرج ایک ہی ہے۔ ممکن ہے کہ راوی وہم کا شکار ہوا ہو۔ لہٰذا صحیح بخاری کے الفاظ کو ترجیح دی جائے گی۔ حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام اصحاب مغازی عصر کی نماز کے قائل ہیں۔

ظہر یا عصر کی نماز بیان کرنے میں کسی راوی سے بھول تو واقع نہیں ہوئی؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صراحت کرتے ہوئے اس مسئلے پر کہتے ہیں:
«فالذي يظهر من تغاير اللفظين أن عبدالله بن محمد بن اسماء شيخ الشيخين فيه لما حدث به البخاري حدث به على هذا اللفظ ولما حدث به الباقين حدثهم به على اللفظ الأخير وهو اللفظ الذى حدث به جويرية . . .» [فتح الباري ج6 ص520]
یعنی مجھ کو معلوم ہوا کہ اختلاف لفظ مذکور میں سے اس کے بعض راویوں کے حفظ اور یاد داشت کی وجہ سے ہے پس جو ظاہر ہوتا ہے دونوں لفظوں کے اختلاف سے وہ یہ ہے کہ عبداللہ بن محمد شیخین کے شیخ نے جب امام بخاری رحمہ اللہ کو حدیث بیان کی تو عصر کے لفظ کے ساتھ حدیث بیان کی اور جب باقی لوگوں کو بیان کی تو ظہر کے لفظ کے ساتھ حدیث بیان کی یا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو لکھا اپنی یاد سے نہیں رعایت کی انہوں نے لفظ کو جیسے معروف ہے ان کے مذہب سے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عبداللہ بن محمد کے شیخ نے جب بخاری رحمہ اللہ کو بیان کیا تو عصر کہہ دیا اور جب مسلم رحمہ اللہ کو بیان کیا تو ظہر کہہ دیا یعنی یہ الفاظ کا اختلاف ان کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔

کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دو گروہ تھے؟ کہ ایک کو ظہر کا حکم دیا گیا اور دوسرے گروہ کو عصر کا:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اما جمعهم بين الروايتين فى كونها الظهر والعصر فمحمول على أن هذا الأمر كان بعد دخول وقت الظهر، وقد صلى الظهر بالمدينة بعضهم دون بعض، فقيل للذين لم يصلوا الظهر: لا تصلوا الظهر الا فى بني قريظة وللذين صلوا بالمدينة لا تصلوا العصر ولا الظهر اِلا فى بني قريظة، ويحتمل انه قيل للذين ذهبوا أولا: لا تصلوا الظهر اِلا فى بني قريظة، وللذين ذهبوا بعدهم لا تصلوا العصر اِلا فى بنو قريظة» [شرح مسلم النووي ج12 ص98]
یعنی ان دونوں روایتوں میں ظہر اور عصر کا جو ذکر ہے یہ محمول ہے اس امر پر کہ یہ حکم ظہر کے دخول کے بعد کا تھا، یقیناً جن لوگوں نے بعض کے علاوہ نماز پڑھی مدینے میں تو پھر کہا گیا ان سے جنہوں نے نماز ظہر نہیں پڑھی کہ تم نہ پڑھنا ظہر مگر بنوقریظہ میں جا کر، اور ان لوگوں کو جنہوں نے مدینہ میں نماز پڑھی تو ان سے کہا گیا کہ تم نہ پڑھنا عصر اور نہ ظہر مگر بنو قریظہ میں، اور یہ احتمال ہے کہ یہ ان سے کہا گیا ہو جو پہلے ہی جا چکے ہوں گے، تم نہ پڑھنا ظہر مگر بنوقریظہ میں اور جو لوگ بعد میں گئے ہوں گے تو ان سے کہا گیا ہو گا کہ تم نہ نماز پڑھنا عصر کی مگر بنوقریظہ میں۔
امام نووی کی اس وضاحت سے دونوں احادیث میں تطبیق کی بہترین صورت بنتی ہے کہ یہ دو گروہ تھے ایک جو ظہر کے وقت نکلا تو ان کو ظہر اور عصر کا حکم دیا گیا اور جو دوسرا گروہ تھا اسے صرف عصر کا حکم دیا گیا کیوں کہ اس گروہ نے ظہر کے بعد وہاں سے کوچ کیا تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں اسی قسم کی تطبیق دی کہ ایک گروہ کو نماز ظہر کا حکم دیا اور دوسرے گروہ کو عصر کی نماز کا بنوقریظہ میں پڑھنے کا حکم دیا ظہر کی نماز کی روایت کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا اور عصر کی نماز کا کعب بن مالک اور امی عائشہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا۔ تفصيل كے ليے مراجعت فرمائيں: [فتح الباري ج6 ص520]
اس مختصر سے بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ لشکر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ایک لشکر کا حصہ وہ ہو جو ظہر سے قبل روانہ ہوا ان کو کہا گیا کہ ظہر بنوقریظہ میں جا کر پڑھنی ہے اور دوسرا لشکر وہ جو ظہر کے بعد روانہ ہوا تھا تو ان سے کہا گیا ہو کہ عصر بنوقریظہ میں پڑھنی ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لشکر میں ایسے لوگ موجود ہوں جنہوں نے ظہر نہ پڑھی ہو تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ آپ ظہر وہاں ادا کریں اور جو باقی حضرات تھے ان کو عصر کی نماز کا حکم دیا گیا ہو گا۔
اب آخری سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنہوں نے راستہ میں عصر پڑھ لی وہ فضیلت کو پہنچے یا جنہوں نے نہ پڑھی وہ؟ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس کو ترجیع دی کہ عصر بنوقریظہ میں ہی ادا کی جائے آپ فرماتے ہیں کہ ہم اگر وہاں ہوتے تو بنوقریظہ تک پہنچنے میں اگر کئی برس بھی لگ جاتے تب بھی عصر کی نماز بنوقریظہ سے پہلے نہ پڑھتے لیکن حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ان لوگوں کو ترجیع دی جنہوں نے نماز راستے میں ہی ادا کر لی چنانچہ ابن القیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«بل الذين صلوها فى الطريق فى وقتها حازو اقصب السبق، وكانوا اسعد بالفضيلتين، فانهم بادروا إلى امتثال أمره فى الخروج بادروا أى مرضاته فى الصلاة فى وقتها . . .» [زاد المعاد، ج2 ص113]
بلکہ وہ لوگ جنہوں نے راستے میں نماز پڑھی اور نماز عصر کو اپنے وقت پر ادا کیا کیوں کہ ان لوگوں نے دو فضیلتیں حاصل کی ہیں ایک فضیلت وقت پر ادا کرنے کی اور دوسری فضیلت جہاد میں حصہ لینے کی، اور جلد سے جلد بنوقریظہ پہنچنے کی فکر تو ان کو بھی دامن گیر تھی چنانچہ انہوں نے نماز راستے میں پڑھی اور پہنچتے ہی مورچہ بندی کا عمل شروع کیا اس لیے ان کے فعل کو ترجیع دی گئی ہے۔
لہٰذا کسی بھی گروہ کو فضیلت حاصل ہو لیکن دین کے معاملے میں دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پاکیزہ جماعت مخلص تھی اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اجر نصیب فرمایا۔

◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا:! «وما علينا من اثم، فصلّت طائفه ايمانًا واحتسابا، وتركت طائفة ايمانًا واحتسابا ولم يعب النبى صلى الله عليه وسلم واحد من الفريقين» [دلائل النبوة البيهقي ج4 ص8]
ہم پر کچھ گناہ نہ تھا (کیوں کہ) جس گروہ نے نماز پڑھی اس نے بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ (عمل کیا) اور جس نے نہ پڑھی اس نے بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ (عمل کیا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں گروہ پر کچھ بھی ملامت نہ کی۔

◈ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یقیناً علماء نے اختلاف کیا ہے کہ (اجتہاد میں) کون صحیح تھا اس دن؟ بلکہ اسی مسئلہ پر ہے کہ دونوں فریقین اجر کے مستحق ٹھہرے بغیر کسی ملامت کے۔ علماء کی ایک جماعت نے کہا: جنہوں نے نماز میں تاخیر کی تھی اس دن (نماز) کے مقررہ وقت سے یہاں تک کہ انہوں نے بنوقریظہ میں جا کر ادا کی۔ کیونکہ انہیں اس دن نماز کی تاخیر کا حکم تھا۔ خاص مقدم ہے عام پر۔ علماء کی دوسری جماعت نے کہا: بلکہ وہ لوگ جنہوں نے نماز کو اپنے وقت پر ادا کر لی ان کا فہم یہ تھا کہ افضل نماز اس کے وقت پر ادا کرنا ہے اسی وجہ سے ان میں کسی پر بھی ملامت نہیں کی گئی اور نہ ہی نماز کے اعادہ کا حکم دیا گیا۔۔۔ [البدايه والنهايه، ج4، ص117]

◈ امام محمد بن خلیفہ (المتوفي 827ھ أو 828) رقمطراز ہیں:
«انما مراده صلى الله عليه وسلم استعجال الخروج لا قصد تأخير الصلاة، فمن أخذ بهذا المفهوم صلى خف فوت الوقت، ومن أخذ بظاهر اللفظ أخر، ففيه حجة للقائلين بالمفهوم وللقائلين بالظاهر»
بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد جلدی نکلنے کی تھی نہ کہ نماز میں تاخیر کی۔ پس جس نے یہ مفہوم مراد لیا تو اس نے وقت کے فوت ہونے کے خوف سے نماز پڑھ لی اور جنہوں نے ظاہر لفظ کا مطلب اخذ کیا وہ دوسرے تھے۔ پس اس میں دلیل ہے ان قائلین کے لیے جنہوں نے مفہوم سے دلیل لی اور ان قائلین کے لیے جنہوں نے ظاہر (حکم سے) دلیل اخذ کی۔

فائدہ نمبر 2:
یہاں پر اس نکتہ کو ضرور یاد رکھیں کہ «المجتهد قد يخطئ ويصيب» کہ مجتہد سے خطا اور ثواب دونوں ہو سکتے ہیں اور خطا پر بھی اس کی گرفت نہ ہو گی بلکہ وہ ایک ثواب کا مستحق ہو گا۔ مگر جب قرآن و سنت سے واضح دلائل میسر آ جائیں تو اجتہاد کو ترک کرنا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا واجب ہو گا۔ سلف صالحین میں ایسی مثالیں ان گنت ہیں کہ جب انہیں قرآن و سنت کے نصوص پہنچے تو انہوں نے برملا طور پر اپنے اختیار اور عمل کو ترک کیا اور قرآن و سنت پر عمل کیا۔

◈ امام ابن قیم ابن الجوزی رحمہ اللہ چودہ برس تک ایک پر عمل کرتے رہے۔ چودہ برس بعد انہیں اس حدیث کے ضعف کی خبر ہوئی تو آپ نے فوراً اپنا عمل ترک کر دیا۔

امام ابویوسف جو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید ہیں آپ نے «بيع الوقوف» والی حدیث کا ذکر فرمایا اور کہا: کہ اگر «بيع الوقوف» امام ابوحنیفہ تک پہنچتی تو رجوع کر لیتے۔ [سبل السلام، ج4، ص187]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ میں بھی رجوع کا مادہ تھا اور آپ کا فتویٰ اگر قرآن و سنت کے خلاف ہو گا تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ یہی صحیح مؤقف ہے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے بھی یہی تعلیم دی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 212   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3005  
´بنو نضیر سے جنگ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا، اور بنو قریظہ کو رہنے دیا اور ان پر احسان فرمایا (اس لیے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر لیا تھا) یہاں تک کہ قریظہ اس کے بعد لڑے ۱؎ تو ان کے مرد مارے گئے، ان کی عورتیں، ان کی اولاد، اور ان کے مال مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے، ان میں کچھ ہی لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امان دی، وہ مسلمان ہو گئے، باقی مدینہ کے سارے یہودیوں کو رسو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3005]
فوائد ومسائل:

ایمان اور اسلام انسان کو دنیا میں جان مال و آبرو کی امان دیتا ہے۔
اورآخر ت میں ابدی امان کا باعث ہوگا۔


حضرت عبد اللہ بن سلام کی سیرت سے واضح ہوجاتا ہے۔
کہ ایمان جب دل کی گہرایئوں میں اتر جاتا ہے۔
تو دنیا کی عارضی لذتیں اور قوم قبیلے کی عصبیت کی اہمیت ختم ہوجاتی ہیں۔
پھر اللہ کے رسولﷺ سے بڑھ کر اور کوئی محبوب نہیں ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3005   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 946  
946. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو ہمیں حکم فرمایا: کوئی بھی نماز عصر بنو قریظہ کے علاوہ کہیں اور نہ پڑھے۔ چنانچہ بعض لوگوں کو راستے میں عصر کا وقت آ گیا تو کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھیں گے اور کچھ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں، لہٰذا ہم تو نماز پڑھیں گے۔ جب اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:946]
حدیث حاشیہ:
طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت ﷺ نے فوراً ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔
مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔
یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔
معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور ﷺ نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری ؒ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد ؒ کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک ؒ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔
ولید نے امام اوزاعی ؒ کے مذہب پر حدیث:
لا یصلین أحد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت ﷺ نے نماز قضا ہو جانے کی ان کے لیے پروا نہ کی۔
جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری ؒ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔
بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوںگے (الغرض)
فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔
معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔
نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 946   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:946  
946. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو ہمیں حکم فرمایا: کوئی بھی نماز عصر بنو قریظہ کے علاوہ کہیں اور نہ پڑھے۔ چنانچہ بعض لوگوں کو راستے میں عصر کا وقت آ گیا تو کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھیں گے اور کچھ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں، لہٰذا ہم تو نماز پڑھیں گے۔ جب اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:946]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولید بن مسلم نے امام اوزاعی کے موقف کی تائید میں مذکورہ بالا واقعہ بطور دلیل پیش کیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو پہلے معلق ذکر کرنے کے بعد متصل سند سے بیان کیا ہے تاکہ صحت حدیث اور صحت استدلال کا علم ہو جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ خندق سے واپس آئے تو آپ نے ہتھیار اتار دیے۔
حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم نے ابھی اپنے ہتھیار نہیں اتارے کیونکہ ہمارا بنو قریظہ سے نمٹنے کا ارادہ ہے۔
انہوں نے منافقانہ طریقے سے دشمن کی مدد کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کا کام تمام کرنے کے لیے تیار ہو گئے، پھر آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ارشاد فرمایا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔
جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا وہ حملہ آور تھے اور آپ نے انہیں وہاں جلد پہنچنے کا حکم دیا تھا۔
اگرچہ روایت میں صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے سواریوں سے اتر کر نماز پڑھی یا سوار رہتے ہوئے اسے ادا کیا، تاہم جلد پہنچنے کے تقاضے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سواریوں پر نماز پڑھی ہو گی۔
حضرت ولید بن مسلم نے سکوت سے استدلال کیا ہے کیونکہ حدیث میں سواریوں پر یا اتر کر نماز پڑھنے کی صراحت نہیں ہے۔
علامہ عینی نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ مطلوب آدمی نماز کو اشارے سے پڑھ سکتا ہے، حالانکہ اس پر رکوع اور سجود کا صحیح حالت میں ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بروقت نماز پڑھنا ضروری تھا لیکن انہوں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے اسے مؤخر کیا اور بنو قریظہ میں جا کر اسے ادا کیا۔
(عمدة القاري: 147/5) (2)
حملہ آور کی نماز کے متعلق ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن انیس ؓ کو خالد بن سفیان ہذلی کا کام تمام کرنے کے لیے روانہ کیا۔
فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو نماز عصر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔
مجھے اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوا تو میں نے چلتے چلتے اشارے سے نماز ادا کر لی کیونکہ اگر ٹھہر کر تسلی سے نماز پڑھتا تو دشمن کے نکل جانے کا اندیشہ تھا، چنانچہ میں نے اسے قتل کر دیا۔
(سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث: 1249)
امام ابوداود ؒ نے اس حدیث پر حملہ آور کی نماز کا عنوان قائم کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 584/2) (3)
بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا یہ مطلب لیا کہ راستے میں کسی جگہ پڑاؤ کیے بغیر ہم جلدی پہنچیں، انہوں نے نماز قصر نہ کی اور اسے سواری ہی پر ادا کر لیا جبکہ دوسرے اصحاب رضی اللہ عنہم نے آپ کے ارشاد گرامی کو ظاہر پر محمول کیا کہ اگر تعمیل حکم میں نماز دیر سے بھی ادا ہوئی تو ہم گناہ گار نہیں ہوں گے۔
چونکہ فریقین کی نیت درست تھی، اس لیے کوئی بھی قابل ملامت نہ ٹھہرا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 946   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.