الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
26. بَابُ الصَّلاَةِ قَبْلَ الْعِيدِ وَبَعْدَهَا:
26. باب: عیدگاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد نفل نماز پڑھنا کیسا ہے۔
(26) Chapter. The offering of Salat (prayer) before or after the Eid prayer.
حدیث نمبر: Q989
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابو المعلى: سمعت سعيدا عن ابن عباس كره الصلاة قبل العيد.وَقَالَ أَبُو الْمُعَلَّى: سَمِعْتُ سَعِيدًا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ كَرِهَ الصَّلَاةَ قَبْلَ الْعِيدِ.
‏‏‏‏ اور ابومعلی یحییٰ بن میمون نے کہا کہ میں نے سعید سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے تھے کہ آپ عید سے پہلے نفل نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے۔

حدیث نمبر: 989
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثني عدي بن ثابت، قال: سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس،" ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الفطر فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها ومعه بلال".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا وَمَعَهُ بِلَالٌ".
ہم سے ابوولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نکلے اور (عیدگاہ) میں دو رکعت نماز عید پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet went out and offered a two rak`at prayer on the Day of `Id ul Fitr and did not offer any other prayer before or after it and at that time Bilal was accompanying him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 15, Number 104


   صحيح البخاري7325عبد الله بن عباسأتى العلم الذي عند دار كثير بن الصلت فصلى ثم خطب لم يذكر أذانا ولا إقامة أمر بالصدقة فجعل النساء يشرن إلى آذانهن وحلوقهن فأمر بلالا فأتاهن ثم رجع إلى النبي
   صحيح البخاري5883عبد الله بن عباسصلى يوم العيد ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي قرطها
   صحيح البخاري959عبد الله بن عباسلم يكن يؤذن بالصلاة يوم الفطر إنما الخطبة بعد الصلاة
   صحيح البخاري964عبد الله بن عباسصلى يوم الفطر ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلن يلقين تلقي المرأة خرصها وسخابها
   صحيح البخاري975عبد الله بن عباسصلى ثم خطب أتى النساء فوعظهن وذكرهن أمرهن بالصدقة
   صحيح البخاري5249عبد الله بن عباسصلى ثم خطب ولم يذكر أذانا ولا إقامة أتى النساء فوعظهن وذكرهن أمرهن بالصدقة فرأيتهن يهوين إلى آذانهن وحلوقهن يدفعن إلى بلال ثم ارتفع هو و بلال إلى بيته
   صحيح البخاري962عبد الله بن عباسيصلون قبل الخطبة
   صحيح البخاري977عبد الله بن عباسصلى ثم خطب أتى النساء ومعه بلال فوعظهن وذكرهن أمرهن بالصدقة فرأيتهن يهوين بأيديهن يقذفنه في ثوب بلال ثم انطلق هو وبلال إلى بيته
   صحيح البخاري989عبد الله بن عباسخرج يوم الفطر فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها ومعه بلال
   صحيح البخاري1449عبد الله بن عباسصلى قبل الخطبة لم يسمع النساء فأتاهن ومعه بلال ناشر ثوبه فوعظهن أمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تلقي وأشار أيوب إلى أذنه وإلى حلقه
   صحيح البخاري1431عبد الله بن عباسصلى ركعتين لم يصل قبل ولا بعد مال على النساء ومعه بلال فوعظهن أمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تلقي القلب والخرص
   صحيح مسلم2045عبد الله بن عباسصلى قبل الخطبة ثم خطب لم يسمع النساء فأتاهن فذكرهن ووعظهن أمرهن بالصدقة وبلال قائل بثوبه فجعلت المرأة تلقي الخاتم والخرص والشيء
   صحيح مسلم2057عبد الله بن عباسخرج يوم أضحى أو فطر فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي خرصها وتلقي سخابها
   جامع الترمذي537عبد الله بن عباسخرج يوم الفطر فصلى ركعتين ثم لم يصل قبلها ولا بعدها
   سنن أبي داود1147عبد الله بن عباسصلى العيد بلا أذان ولا إقامة
   سنن أبي داود1146عبد الله بن عباسصلى ثم خطب ولم يذكر أذانا ولا إقامة أمر بالصدقة جعل النساء يشرن إلى آذانهن وحلوقهن قال فأمر بلالا فأتاهن ثم رجع إلى النبي
   سنن أبي داود1159عبد الله بن عباسخرج رسول الله يوم فطر فصلى ركعتين لم يصل قبلهما ولا بعدهما ثم أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي خرصها وسخابها
   سنن أبي داود1142عبد الله بن عباسخرج يوم فطر فصلى ثم خطب أتى النساء ومعه بلال
   سنن النسائى الصغرى1588عبد الله بن عباسخرج يوم العيد فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها
   سنن النسائى الصغرى1570عبد الله بن عباسبدأ بالصلاة قبل الخطبة ثم خطب
   سنن النسائى الصغرى1587عبد الله بن عباسصلى ثم خطب أتى النساء فوعظهن وذكرهن أمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تهوي بيدها إلى حلقها تلقي في ثوب بلال
   سنن ابن ماجه1274عبد الله بن عباسصلى يوم العيد بغير أذان ولا إقامة
   سنن ابن ماجه1291عبد الله بن عباسخرج فصلى بهم العيد لم يصل قبلها ولا بعدها
   سنن ابن ماجه1273عبد الله بن عباسصلى قبل الخطبة ثم خطب لم يسمع النساء فأتاهن فذكرهن ووعظهن أمرهن بالصدقة وبلال قائل بيديه هكذا فجعلت المرأة تلقي الخرص والخاتم والشيء
   بلوغ المرام391عبد الله بن عباسصلى يوم العيد ركعتين لم يصل قبلهما ولا بعدهما
   بلوغ المرام392عبد الله بن عباسالعيد بلا اذان ولا إقامة
   مسندالحميدي482عبد الله بن عباسأنه صلى قبل الخطبة يوم العيد، ثم خطب فرأى أنه لم يسمع النساء فأتاهن فوعظهن وذكرهن وأمرهن بالصدقة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 975  
´بچوں کا عیدگاہ جانا`
«. . . قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .»
. . . انہوں نے فرمایا کہ میں نے عیدالفطر یا عید الاضحی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر عورتوں کی طرف آئے اور انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کے لیے حکم فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ: 975]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب میں بچوں کا عیدگاہ جانے پر اشارہ کیا گیا ہے اور حدیث جو پیش کی گئی ہے اس میں عورتوں کو نصیحت کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے یعنی حدیث میں بچوں کے عیدگاہ جانے کے کوئی الفاظ نہیں ہیں لیکن اگر تدبر کیا جائے تو باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت جوان نہیں ہوئے تھے وہ نابالغ تھے اور وہ بھی عیدگاہ میں موجود تھے۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر غور کیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وصیت فرمائی، اس حدیث کو ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے اور باب کے ساتھ مناسبت بھی ہے کہ لازمی طور پر عورتیں جن کے چھوٹے بچے ہوں گے وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائی ہوں گی۔ کیوں کہ حدیث میں واضح ہے کہ عید کی نماز میں اگر ایک عورت کے پاس چادر نہیں ہے تو وہ اپنی بہن کے ساتھ چادر میں پردہ کر کے عیدگاہ آئے اور نماز و دعا میں شریک ہو حتی کہ حائضہ عورت بھی مصلی کی جگہ سے دور رہے اور وہ بھی دعا میں شرکت کے لیے عیدگاہ پہنچے جب ایسے حالات میں عورتوں کو عیدگاہ پر آنے کی تلقین کی گئی ہے تو ان کے ساتھ ان کے بچے بھی آ سکتے ہیں، یہیں سے ترجمۃ الباب میں مناسبت ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لكن جري المصنف على عادته فى الاشارة إلى ما ورد فى بعض طرق . . .» [فتح الباري، ج2، ص590]
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آئندہ باب میں مذکور ہیں کہ «ولو لا مكاني من الصغر ما شهدته» ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر باوجود کم عمری کے میری قدر و منزلت آپ کے نزدیک نہ ہوتی تو میں نہیں جا سکتا تھا (عیدگاہ میں)۔‏‏‏‏
اس واضح الفاظ کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما چھوٹی عمر میں عیدگاہ گئے۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
(قلت) اگر غور کیا جائے خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جمعہ کی نماز کے لیے آتیں اور ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے جن کے رونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قرأت میں تخفیف فرمایا کرتے تھے۔ جب عیدگاہ میں خواتین کو تاکید کے ساتھ آنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تو لازماً ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ اگر عید میں بچوں کا آنا ممنوع ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح بچوں کے آنے پر پاپندی لگاتے۔ لہٰذا جب انکار ثابت نہیں تو بچوں کے آنے کا مسئلہ مسجد و عیدگاہ میں اپنی جگہ مسلّم رہا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 220   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1147  
´عید میں اذان نہ دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی اور ابوبکر اور عمر یا عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی، یہ شک یحییٰ قطان کو ہوا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1147]
1147۔ اردو حاشیہ:
یہ ر وایت معناًً صحیح ہے۔ اسی لئے شیخ البانی رحمہ الله نے اس کی تصیح کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1147   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1159  
´نماز عید کے بعد نفل پڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے تو آپ نے دو رکعت پڑھی، نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ نے انہیں صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنی بالیاں اور اپنے ہار (بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں نکال نکال کر) ڈالنے لگیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1159]
1159. اردو حاشیہ:
عید کے روز عیدگاہ میں کوئی نفل نہیں نہ عید سے پہلے نہ بعد۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1159   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1273  
´عیدین کی نماز کا بیان۔`
عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ عورتوں تک آواز نہیں پہنچ سکی ہے لہٰذا آپ ان کے پاس آئے، ان کو (بھی) وعظ و نصیحت کی، اور انہیں صدقہ و خیرات کا حکم دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا دامن پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں اپنی بالیاں، انگوٹھیاں اور دیگر سامان ڈالنے لگیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1273]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گواہی کا مطلب یہ ہے کہ انھیں یہ سب کچھ اچھی طرح یاد ہے اور وہ پورے وثوق سے بیان کر رہے ہیں۔
جس طرح گواہ وہی بات کہتا ہے۔
جو اسے خوب اچھی طرح یاد ہو۔
اور اس میں اسے کوئی شک نہ ہو۔

(2)
عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں پہلے نماز پھر خطبہ ہوتا ہے۔
جب کہ جمعے میں اس کے برعکس ہے۔

(3)
اگر کسی مقام پر لاؤڈ سپیکر کا بندوبست نہ ہوسکے۔
اور امام ضرورت محسوس کرے تو عورتوں کو الگ سے وعظ ونصیحت کی جا سکتی ہے۔

(5)
عورتیں اپنے ذاتی مال میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر بھی صدقہ کرسکتی ہیں۔
اور خاوند کے مال میں سے اس کی اجازت سے صدقہ کرسکتی ہیں۔
خواہ اس نے صراحت سے اجازت دے رکھی ہو یا زیادہ گمان یہ ہو کہ خاوند اس صدقے سے ناراض نہیں ہوگا۔
یہ بھی اجازت ہی کے حکم میں ہے۔

(6)
  بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ اس طرح کیے ہوئے تھے۔
راوی نے اشارہ کرکے بتایا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں کپڑا تھا۔
جوانہوں نے پھیلا رکھا تھا۔
تاکہ اس میں نقدی یا دوسری چیزیں ڈالی جا سکیں۔

(7)
مرد کسی ضرورت کے تحت عورتوں کے اجتماع میں جا سکتا ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی غلط فہمی پید ا ہونے کا یا نامناسب نتائج نکلنے کا خدشہ نہ ہو۔

(8)
عورتیں عید کے موقع پر زیور پہن سکتی ہیں۔

(9(عورتوں کا انگوٹھیاں اور بالیاں پہننا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1273   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 391  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے روز دو ہی رکعتیں ادا فرمائیں نہ پہلے کچھ پڑھا اور نہ بعد میں کوئی نماز پڑھی۔
اسے ساتوں یعنی احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 391»
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب الخطبة بعد العيد، حديث:964، ومسلم، صلاة العيدين، باب ترك الصلاة قبل العيد وبعدها في المصلي، حديث:884، وأبوداود، صلاة الاستسقاء، حديث:1159، والترمذي، الجمعة، حديث:537، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1588، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1291، وأحمد:1 /280، 340، 355.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے عید گاہ میں سوائے دو رکعت نماز عید کے اور کوئی نماز پہلے یا بعد میں پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں‘ البتہ جب واپس گھر تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 391   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 989  
989. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عیدالفطر کے دن باہر تشریف لے گئے۔ ہاں دو رکعت نماز عید پڑھی لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا۔ آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:989]
حدیث حاشیہ:
علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ:
(لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا)
فِيهِ وَفِي بَقِيَّةِ أَحَادِيثِ الْبَابِ دَلِيلٌ عَلَى كَرَاهَةِ الصَّلَاةِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِيدِ وَبَعْدَهَا، وَإِلَى ذَلِكَ ذَهَبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ ابْنُ قَدَامَةَ:
وَهُوَ مَذْهَبُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ. (نیل الأوطار)
یعنی اس حدیث اور اس بارے میں دیگر احادیث سے ثابت ہوا کہ عید کی نماز کے پہلے اور بعد نفل نماز پڑھنی مکروہ ہے۔
امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مسلک ہے اور بقول ابن قدامہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت علی وحضرت عبد اللہ بن مسعود اور بہت سے اکابر صحابہ وتابعین کا بھی یہی مسلک ہے۔
امام زہری ؒ فرماتے ہیں:
لم أسمع أحدا من علماء نا یذکر أن أحدا من سلف ھذہ الأمة کان یصلي قبل تلك الصلوة ولا بعدھا۔
(نیل الأوطار)
یعنی اپنے زمانہ کے علماءمیں میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ سلف امت میں سے کوئی بھی عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نماز پڑھتا ہو۔
ہاں عید کی نماز پڑھ کر اور واپس گھر آکر گھر میں دو رکعت نفل پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أنه کان لا یصلي قبل العید شیئا فإذا رجع إلی منزله صلی رکعتین رواہ ابن ماجة وأحمد بمعناہ۔
یعنی آنحضرت ﷺ نے عید سے پہلے کوئی نماز نفل نہیں پڑھی جب آپ اپنے گھر واپس ہوئے تو آپ نے دو رکعتیں ادا فرمائیں۔
اس کو ابن ماجہ اور احمد نے بھی اس کے قریب قریب روایت کیا ہے۔
علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ أَخْرَجَهُ أَيْضًا الْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ، وَحَسَّنَهُ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ، وَفِي إسْنَادِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ وَفِيهِ مَقَالٌ. وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عِنْدَ ابْنِ مَاجَهْ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ الخز (نیل الأوطار)
یعنی ابو سعید والی حدیث کو حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح بتلایا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تحسین کی ہے اور اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ایک راوی ہے جن کے متعلق کچھ کہا گیا ہے اور اس مسئلہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی بھی ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کی مانند ہے۔
خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں صرف نماز عید اورخطبہ نیز دعا کرنا مسنون ہے عیدگاہ مزید نفل نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔
یہ تو وہ مقام ہے جس کی حاضری ہی اللہ کو اس قدر محبوب ہے کہ وہ اپنے بندوں اور بندیوں کو میدان عید گاہ میں دیکھ کر اس قدر خوش ہوتا ہے کہ جملہ حالات جاننے کے باوجود اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ یہ میرے بندے اور بندیاں آج یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیرے مزدور ہیں جنہوں نے رمضان میں تیرا فرض ادا کیا ہے، تیرے رضا کے لیے روزے رکھے ہیں اور اب میدان میں تجھ سے مزدوری مانگنے آئے ہیں۔
اللہ فرماتا ہے کہ اے فرشتو!گواہ رہو میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے روزوں کو قبول کیا اور ان کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیت تا قیامت عطا کیا۔
پھر اللہ کی طرف سے ندا ہوتی ہے کہ میرے بندو! جاؤ اس حال میں کہ تم بخش دیئے گئے ہو۔
خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں بجزدوگانہ عید کے کوئی نماز نفل نہ پڑھی جائے یہی اسوہ حسنہ ہے اور اسی میں اجروثواب ہے۔
واللہ أعلم وعلمه أتم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 989   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:989  
989. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عیدالفطر کے دن باہر تشریف لے گئے۔ ہاں دو رکعت نماز عید پڑھی لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا۔ آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:989]
حدیث حاشیہ:
(1)
عیدگاہ میں نماز عید سے پہلے اور نماز عید کے بعد نوافل پڑھنے مکروہ ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے عیدگاہ میں نوافل پڑھنا ثابت نہیں، البتہ گھر آ کر وہ نفل پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عید سے پہلے نوافل نہیں پڑھتے تھے، جب گھر واپس آ جاتے تو دو رکعت ادا کرتے۔
(سنن ابن ماجة، إقامةالصلوات، حدیث: 1293)
حاصل کلام یہ ہے کہ نماز عید سے پہلے اور نماز عید کے بعد اس کی کوئی سنتیں ثابت نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 614/2) (2)
عیدگاہ میں صرف تین کام مشروع ہیں:
٭ نماز عید ٭ خطبۂ عید ٭ دعائے خیر۔
اسوۂ رسول ﷺ یہی ہے اور اس پر عمل کرنے میں اجروثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 989   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.