الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
The Book of The Virtues of The Quran
28. بَابُ التَّرْتِيلِ فِي الْقِرَاءَةِ:
28. باب: قرآن مجید کی تلاوت صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر کرنا۔
(28) Chapter. The recitation of Quran in Tartil (clearly and in slow style).
حدیث نمبر: 5044
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن موسى بن ابي عائشة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، في قوله:"لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل جبريل بالوحي وكان مما يحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه، وكان يعرف منه فانزل الله الآية التي في لا اقسم بيوم القيامة سورة القيامة آية 1، لا تحرك به لسانك لتعجل به {16} إن علينا جمعه وقرءانه {17} فإذا قراناه فاتبع قرءانه {18} سورة القيامة آية 16-18 فإذا انزلناه فاستمع ثم إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19، قال: إن علينا ان نبينه بلسانك، قال: وكان إذا اتاه جبريل اطرق، فإذا ذهب قراه كما وعده الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ:"لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ، وَكَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ الَّتِي فِي لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ سورة القيامة آية 1، لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ {16} إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ {17} فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ {18} سورة القيامة آية 16-18 فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19، قَالَ: إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ، قَالَ: وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں۔ بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے آپ کے لیے وحی یاد کرنے میں بہت بار پڑتا تھا اور یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہو جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة‏» میں ہے، نازل کی کہ آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا تو جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے پیچھے پڑھا کریں پھر آپ کی زبان سے اس کی تفسیر بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام آتے تو آپ سر جھکا لیتے اور جب واپس جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ نے آپ سے یاد کروانے کا وعدہ کیا تھا کہ تیرے دل میں جما دینا اس کو پڑھا دینا ہمارا کام ہے پھر آپ اس کے موافق پڑھتے۔

Narrated Ibn `Abbas: Regarding His (Allah's) Statement:-- 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith.' (75.16) And whenever Gabriel descended to Allah's Apostle with the Divine Inspiration, Allah's Apostle used to move his tongue and lips, and that used to be hard for him, and one could easily recognize that he was being inspired Divinely. So Allah revealed the Verse which occurs in the Surah starting with "I do swear by the Day of Resurrection.' (75.1) i.e. 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste then with. It is for Us to collect it (in your mind) (O Muhammad) an give you the ability to recite it 'by heart.' (75.16-17) which means: It is for us to collect it (in your mind) and give you the ability to recite it by heart. And when We have recited it to you (O Muhammad) through Gabriel then follow you its recital. (75.18) means: 'When We reveal it (the Qur'an) to you, Listen to it.' for then: It is for Us to explain it and make it clear to you' (75.19) i.e. It is up to Us to explain it through your tongue. So, when Gabriel came to him, Allah's Apostle would listen to him attentively, and as soon as Gabriel left, he would recite the Revelations, as Allah had promised him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 564


   صحيح البخاري5عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة وكان مما يحرك شفتيه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرءانه
   صحيح البخاري4927عبد الله بن عباسكان النبي إذا نزل عليه الوحي حرك به لسانه
   صحيح البخاري4929عبد الله بن عباسإذا نزل جبريل بالوحي وكان مما يحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه وكان يعرف منه فأنزل الله الآية التي في لا أقسم بيوم القيامة
   صحيح البخاري7524عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة وكان يحرك شفتيه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرءانه
   صحيح البخاري5044عبد الله بن عباسيحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه وكان يعرف منه فأنزل الله الآية التي في لا أقسم بيوم القيامة
   صحيح مسلم1004عبد الله بن عباسإذا نزل عليه جبريل بالوحي كان مما يحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه فكان ذلك يعرف منه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به
   صحيح مسلم1005عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة كان يحرك شفتيه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرآنه
   جامع الترمذي3329عبد الله بن عباسإذا أنزل عليه القرآن يحرك به لسانه يريد أن يحفظه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به
   سنن النسائى الصغرى936عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة وكان يحرك شفتيه قال الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرءانه
   بلوغ المرام1332عبد الله بن عباس يقول الله تعالى : أنا مع عبدي ما ذكرني وتحركت بي شفتاه
   مسندالحميدي537عبد الله بن عباس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5  
´وحی کی ابتدائی کیفیت `
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 5]

تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی ابتدائی کیفیت کے بیان میں اس حدیث کا نقل کرنا بھی مناسب سمجھا جس سے وحی کی عظمت اور صداقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اس لیے کہ اللہ پاک نے ان آیاتِ کریمہ «لاتحرك به لسانك لتعجل به» [القيامة: 16] میں آپ کو پورے طور پر تسلی دلائی کہ وحی کا نازل کرنا، پھر اسے آپ کے دل میں جما دینا، اس کی پوری تفسیر آپ کو سمجھا دینا، اس کا ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنا یہ جملہ ذمہ داریاں صرف ہماری ہیں۔ ابتداءمیں آپ کو یہ کھٹکا رہتا تھا کہ کہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے جانے کے بعد میں نازل شدہ کلام کو بھول نہ جاؤں۔ اس لیے آپ ان کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے اپنی زبانِ مبارک ہلاتے رہتے تھے، اس سے آپ کو روکا گیا اور بغور و توجہ کامل سننے کے لیے ہدایتیں کی گئیں، جس کے بعد آپ کا یہی معمول ہو گیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ «لاتحرك به» الخ کے نزول کے وقت عالم وجود میں نہ تھے۔ مگر بعد کے زمانوں میں جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ابتدائی حالات بیان فرماتے تب ابتدائے نبوت کی پوری تفصیل بیان فرمایا کرتے تھے، ہونٹ ہلانے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایسا ہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے عہد میں دیکھا اور فعل نبوی کی اقتدا میں اپنے ہونٹ ہلاکر اس حدیث کو نقل فرمایا۔ پھر حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے بھی اپنے عہد میں اسے روایت کرتے وقت اپنے ہونٹ ہلائے۔ اسی لیے اس حدیث کو مسلسل بتحریک الشفتین کہا گیا ہے۔ یعنی ایسی حدیث جس کے راویوں میں ہونٹ ہلانے کا تسلسل پایا جائے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وحی کی حفاظت کے لیے اس کے نزول کے وقت کی حرکات و سکنات نبویہ تک کو بذریعہ نقل در نقل محفوظ رکھا گیا۔ آیتِ شریفہ «ثم ان علينا بيانه» میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قرآن مجید کی عملی تفسیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور اپنے عمل سے دکھلائی یہ بھی سب اللہ پاک کی وحی کے تحت ہے، اس سے حدیث نبوی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی میں شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ان کو غلط قرار دینے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ان کے خیالات باطلہ کی بھی یہاں پوری تردید موجود ہے۔ صحیح مرفوع حدیث یقینا وحی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قرآنی وحی کو وحی متلو اور حدیث کو وحی غیرمتلو قرار دیا گیا ہے۔

حدیث مذکورہ سے معلم و متعلّم کے آداب پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک متعلّم کی حیثیت میں استماع اور انصات کی ہدایت فرمائی گئی۔ استماع کانوں کا فعل ہے اور انصات بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آنکھوں سے ہوتا ہے۔ پس متعلّم کے لیے ضروری ہے کہ درس کے وقت اپنے کانوں اور آنکھوں سے معلّم پر پوری توجہ سے کام لے۔ اس کے چہرے پر نظر جمائے رکھے، لب و لہجہ کے اشارات سمجھنے کے لیے نگاہ استاد کی طرف اٹھی ہوئی ہو۔ قرآن مجید و حدیث شریف کی عظمت کا یہی تقاضا ہے کہ ان ہر دو کا درس لیتے وقت متعلّم ہمہ تن گوش ہو جائے اور پورے طور پر استماع اور انصات سے کام لے۔ حالتِ خطبہ میں بھی سامعین کے لیے اسی استماع و انصات کی ہدایت ہے۔ نزول وحی کے وقت آپ پر سختی اور شدت کا طاری ہونا اس لیے تھا کہ خود اللہ پاک نے فرمایا ہے «اناسنلقي عليك قولا ثقيلا» بے شک ہم آپ پر بھاری باعظمت کلام نازل کرنے والے ہیں۔ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی نزول وحی کے وقت آپ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے۔ وہی کیفیت یہاں بیان کی گئی ہے۔

آیت شریفہ میں زبان ہلانے سے منع کیا گیا ہے اور حدیث ہذا میں آپ کے ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے۔ یہاں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ کتاب التفسیر میں حضرت جریر نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے اس واقعہ کی تفصیل میں ہونٹوں کے ساتھ زبان ہلانے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم اذا نزل جبرئيل بالوحي فكان ممايحرك بلسانه وشفتيه» اس صورت میں آیت و حدیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔

راویانِ حدیث: حضرت موسیٰ بن اسماعیل منقری۔ منقر بن عبید الحافظ کی طرف منسوب ہیں۔ جنھوں نے بصرہ میں 223 ھ ماہِ رجب میں انتقال فرمایا۔ غفر اللہ لہ۔ ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ ہیں جن کا 196 ھ میں انتقال ہوا۔ موسیٰ بن ابی عائشہ (الکوفی الہمدانی) ہیں۔ سعید بن جبیر بن ہشام الکوفی الاسدی ہیں۔ جن کو 96 ھ میں مظلومانہ حالت میں حجاج بن یوسف ثقفی نے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ جن کی بددعا سے حجاج پھر جلد ہی غارت ہو گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ترجمان القرآن کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے ان کے لیے فہم قرآن کی دعا فرمائی تھی۔ 68ھ میں طائف میں ان کا انتقال ہوا۔ صحیح بخاری شریف میں ان کی روایت سے 217 احادیث نقل کی گئی ہیں۔ [قسطلانی]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5044  
5044. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا درج زیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کی خاطر اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ جب جبریل ؑ وحی لے کر آتے تو رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے۔ آپ پر یہ معاملہ گراں تھا اور یہ گرانی واضح طور ہر معلوم ہوتی تھی تو اللہ تعالٰی نے سورہ قیامہ والی مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ آپ یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس قرآن کو آپ کے دل میں ج دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں، جب ہم قرآن نازل کریں تو آپ خاموشی سے سنیں، ہمارے ذمے اس کا بیان کرنا بھی ہے یعنی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے اس کی وضاحت کریں، اس کے بعد جب جبرئیل ؑ آتے تو آپ گردن جھکا کر اسے سنتے جب وہ چلے جاتے تو آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5044]
حدیث حاشیہ:
آیت ثم ان علینا بیانہ (القیا مہ: 19)
سے ثابت ہواکہ سلسلہ تفسیرقرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا جسے لفظ حدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ سارا ذخیرہ بھی اللہ پاک ہی کا تعلیم فر مودہ ہے۔
اسی سے احادیث کووحی غیر متلوسے تعبیرکیا گیا ہے جولوگ احادیث صحیحہ کے منکر ہیں وہ قرآن پاک کی اس آیت کا انکار کر تے ہیں اس لئے وہ صرف منکر حدیث ہی نہیں بلکہ منکر قرآن بھی ہیں ھداھم اللہ الی صراط مستقیم آیت۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5044   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 936  
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کے قول: «لا تحرك به لسانك لتعجل به * إن علينا جمعه وقرآنه» (القیامۃ: ۱۶- ۱۷) کی تفسیر میں مروی ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی اترتے وقت بڑی تکلیف برداشت کرتے تھے، اپنے ہونٹ ہلاتے رہتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نبی! آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، کیونکہ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے ۱؎، ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ «جمعه» کے معنی: اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں بیٹھا دینا ہے، اور «قرآنه» کے معنی اسے اس طرح پڑھوا دینا ہے کہ جب آپ چاہیں اسے پڑھنے لگ جائیں «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» میں «فاتبع قرآنه» کے معنی ہیں: آپ اسے غور سے سنیں، اور چپ رہیں، چنانچہ جب جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ بغور سنتے تھے، اور جب روانہ ہو جاتے تو آپ اسے پڑھتے جس طرح انہوں نے پڑھایا ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 936]
936 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔
➋ حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ [عون الباري: 1: 58]
یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا﴾ » [المزمل: 5: 73]
یقیناً ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔
➌ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انہیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قرأت مکمل کر لیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسَى﴾ » [الاعلیٰ: 6: 87]
ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔
➎ اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ کی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کر سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 936   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1332  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندوں کے اس وقت تک ساتھ رہتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میرے لئے اس کے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں۔ اس کو ابن ماجہ نے نکالا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور بخاری نے اسے تعلیقاً بیان کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1332»
تخریج:
«أخرجه ماجه، الأدب، باب فضل الذكر، حديث:3792، وابن حبان(الإحسان):2 /92، والبخاري تعليقًا، التوحيد، باب قول الله تعالي: " لا تحرك به لسانك..."، قبل حديث:7524.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
2. اللہ کے ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والے خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور ساتھ نصیب ہوتا ہے۔
3. ذکر اللہ تعالیٰ کی توحید‘ اس کی ثنا‘ تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔
محض دل میں ان کلمات کے ہونے کا کوئی معنی نہیں جب تک کہ زبان بھی دل کی ہمنوا نہ ہو۔
اور صرف زبان سے ادا کرنا اور دل کا بے خبر رہنا‘ اس سے بھی کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
جب دل اور زبان ہم آہنگ ہوں اور ایک دوسرے کے ہمنوا ہوں تو مطلوب حاصل ہوتا ہے اور یہی اللہ کے ہاں مطلوب اور محبوب ہے۔
4.دعا اور ذکر میں طلب کا فرق ہے۔
دعا میں طلب ہوتی ہے جب کہ ذکر میں نہیں۔
5. دعا کی فضیلت میں بہت سی احادیث منقول ہیں۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی الوابل الصیب اس سلسلے میں بہترین کتاب ہے۔
اہل ذوق اس کی طرف رجوع فرمائیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1332   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3329  
´سورۃ القیامہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تو جلدی جلدی زبان چلانے (دہرانے) لگتے تاکہ اسے یاد و محفوظ کر لیں، اس پر اللہ نے آیت «لا تحرك به لسانك لتعجل به» اے نبی!) آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (القیامۃ: ۱۶)، نازل ہوئی۔ (راوی) اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، (ان کے شاگرد) سفیان نے بھی اپنے ہونٹ ہلا کر دکھائے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3329]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے نبی! آپ قرآن کوجلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (القیامة: 16)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3329   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5044  
5044. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا درج زیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کی خاطر اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ جب جبریل ؑ وحی لے کر آتے تو رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے۔ آپ پر یہ معاملہ گراں تھا اور یہ گرانی واضح طور ہر معلوم ہوتی تھی تو اللہ تعالٰی نے سورہ قیامہ والی مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ آپ یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس قرآن کو آپ کے دل میں ج دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں، جب ہم قرآن نازل کریں تو آپ خاموشی سے سنیں، ہمارے ذمے اس کا بیان کرنا بھی ہے یعنی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے اس کی وضاحت کریں، اس کے بعد جب جبرئیل ؑ آتے تو آپ گردن جھکا کر اسے سنتے جب وہ چلے جاتے تو آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5044]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتلاوت کے وقت جلدی کرنے سے منع کیاگیاہے،اس کا تقاضا ہے قرآن کریم کوخوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔
ترتیل قرآن کا یہی حق ہے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کو اس قدر ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ سورت بہت طویل ہوجاتی۔
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین وقصرھا حدیث: 1712(733)
اسی طرح حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ جب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقرآن سناتا تو فرماتے:
"قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو کیونکہ ایسا کرنا قرآن کی زینت ہے۔
"(السنن الکبری للبیہقی 54/2 وفتح الباری 113/9)

قرآن مجید کے ہم پر کئی ایک حقوق ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے آہستہ آہستہ خوب ٹھہر ٹھہر کرپڑھا جائے اور پڑھتے وقت حروف کے مخارج اور صفات کا خیال رکھاجائے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5044   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.