89. بَابُ إِكْرَامِ الْكَبِيرِ وَيَبْدَأُ الأَكْبَرُ بِالْكَلاَمِ وَالسُّؤَالِ:
89. باب: جو عمر میں بڑا ہو اس کی تعظیم کرنا اور پہلے اسی کو بات کرنے اور پوچھنے دینا۔
(89) Chapter. To respect the old ones, and the elder one should start talking or asking.
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said, "Inform me of a tree which resembles a Muslim, giving its fruits at every season by the permission of its Lord, and the leaves of which do not fall." I thought of the date-palm tree, but I disliked to speak because Abu Bakr and `Umar were present there. When nobody spoke, the Prophet said, "It is the date-palm tree" When I came out with my father, I said, "O father! It came to my mind that it was the date-palm tree." He said, "What prevented you from saying it?" Had you said it, it would have been more dearer to me than such-and-such a thing (fortune)." I said, "Nothing prevented me but the fact that neither you nor Abu Bakr spoke, so I disliked to speak (in your presence).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 165
● صحيح البخاري | 62 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة لا يسقط ورقها وإنها مثل المسلم حدثوني ما هي قال فوقع الناس في شجر البوادي قال عبد الله فوقع في نفسي أنها النخلة فاستحييت ثم قالوا حدثنا ما هي يا رسول الله قال هي النخلة |
● صحيح البخاري | 4698 | عبد الله بن عمر | أخبروني بشجرة كالرجل المسلم لا يتحات ورقها ولا ولا ولا تؤتي أكلها كل حين قال ابن عمر فوقع في نفسي أنها النخلة ورأيت أبا بكر وعمر لا يتكلمان فكرهت أن أتكلم فلما لم يقولوا شيئا قال رسول الله هي النخلة |
● صحيح البخاري | 6144 | عبد الله بن عمر | أخبروني بشجرة مثلها مثل المسلم تؤتي أكلها كل حين بإذن ربها ولا تحت ورقها فوقع في نفسي أنها النخلة فكرهت أن أتكلم وثم أبو بكر وعمر فلما لم يتكلما قال النبي هي النخلة فلما خرجت مع أبي قلت يا أبتاه وقع في نفسي أنها النخلة |
● صحيح البخاري | 6122 | عبد الله بن عمر | مثل المؤمن كمثل شجرة خضراء لا يسقط ورقها ولا يتحات |
● صحيح البخاري | 61 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة لا يسقط ورقها وإنها مثل المسلم فحدثوني ما هي فوقع الناس في شجر البوادي قال عبد الله ووقع في نفسي أنها النخلة ثم قالوا حدثنا ما هي يا رسول الله قال هي النخلة |
● صحيح البخاري | 72 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة مثلها كمثل المسلم فأردت أن أقول هي النخلة فإذا أنا أصغر القوم فسكت قال النبي هي النخلة |
● صحيح البخاري | 5448 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة تكون مثل المسلم وهي النخلة |
● صحيح البخاري | 5444 | عبد الله بن عمر | من الشجر لما بركته كبركة المسلم فظننت أنه يعني النخلة فأردت أن أقول هي النخلة يا رسول الله ثم التفت فإذا أنا عاشر عشرة أنا أحدثهم فسكت فقال النبي هي النخلة |
● صحيح البخاري | 2209 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة كالرجل المؤمن فأردت أن أقول هي النخلة فإذا أنا أحدثهم قال هي النخلة |
● صحيح البخاري | 131 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة لا يسقط ورقها وهي مثل المسلم حدثوني ما هي فوقع الناس في شجر البادية ووقع في نفسي أنها النخلة قال عبد الله فاستحييت فقالوا يا رسول الله أخبرنا بها فقال رسول الله هي النخلة |
● صحيح مسلم | 7098 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة لا يسقط ورقها وإنها مثل المسلم فحدثوني ما هي فوقع الناس في شجر البوادي قال عبد الله ووقع في نفسي أنها النخلة فاستحييت ثم قالوا حدثنا ما هي يا رسول الله قال فقال هي النخلة قال فذكرت ذلك لعمر قال لأن تكون قلت هي النخلة أحب إلي من |
● صحيح مسلم | 7102 | عبد الله بن عمر | أخبروني عن شجرة مثلها مثل المؤمن فجعل القوم يذكرون شجرا من شجر البوادي قال ابن عمر وألقي في نفسي أو روعي أنها النخلة فجعلت أريد أن أقولها فإذا أسنان القوم فأهاب أن أتكلم فلما سكتوا قال رسول الله هي النخلة |
● صحيح مسلم | 7102 | عبد الله بن عمر | أخبروني بشجرة شبه أو كالرجل المسلم لا يتحات ورقها وتؤتي أكلها وكذا وجدت عند غيري أيضا ولا تؤتي أكلها كل حين قال ابن عمر فوقع في نفسي أنها النخلة ورأيت أبا بكر وعمر لا يتكلمان فكرهت أن أتكلم أو أقول شيئا |
● جامع الترمذي | 2867 | عبد الله بن عمر | من الشجر شجرة لا يسقط ورقها وهي مثل المؤمن حدثوني ما هي قال عبد الله فوقع الناس في شجر البوادي ووقع في نفسي أنها النخلة فقال النبي هي النخلة فاستحييت أن أقول قال عبد الله فحدثت عمر بالذي وقع في نفسي فقال لأن تكون قلتها أحب |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 630 | عبد الله بن عمر | إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وهى مثل الرجل المسلم، فحدثوني ما هي؟ |
● المعجم الصغير للطبراني | 81 | عبد الله بن عمر | إني لأعلم شجرة مثلها مثل الرجل المؤمن ، فقلت ، وأنا أصغر القوم : هي النخلة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : هي النخلة |
● مسندالحميدي | 693 | عبد الله بن عمر | إني لأعلم شجرة مثلها كمثل الرجل المسلم |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 630
´سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صاحب علم تھے`
«. . . 298- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وهى مثل الرجل المسلم، فحدثوني ما هي؟“ فوقع الناس فى شجر البوادي، ووقع فى نفسي أنها النخلة، فاستحييت. فقالوا: حدثنا يا رسول الله ما هي؟ فقال: ”هي النخلة.“ قال عبد الله بن عمر: فحدثت بالذي وقع فى نفسي من ذلك عمر بن الخطاب، فقال عمر: لأن تكون قلتها أحب إلى من كذا وكذا. كمل حديثه عن عبد الله بن عمر، وتقدم حديثه ”لا ينظر الله“ فى باب زيد وحدث ”في صلاة الليل“ فى باب نافع. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے (سارا سال) نہیں گرتے اور اس کی مثال مسلمان آدمی کی طرح ہے، مجھے بتاؤ کہ یہ کون سا درخت ہے؟“ تو لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں حیا کی وجہ سے نہ بولا: پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمیں بتائیے کہ یہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر میں نے (اپنے والد) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے وہ بات کہی جو میرے دل میں آئی تھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم یہ بات (اس وقت) کہہ دیتے تو میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی۔ عبداللہ بن دینار کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں اور ایک حدیث زید (بن اسلم) کے باب [ ح ۱۶۵] میں گزر چکی ہے اور دوسری نافع کے باب [ ح ۲۰۲] میں گزر چکی ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 630]
تخریج الحدیث: [وأخرجه الجوهري486، من حديث مالك به ورواه البخاري 131، من حديث مالك، ومسلم 2811، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ یہ روایت محمد بن الحسن الشیبانی کی طرف منسوب [الموطأ ص399، 400 ح964] میں بھی امام مالک کی سند سے موجود ہے۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت بڑے عالم تھے۔
➌ علم کی باتیں پوچھنے اور بتانے سے شرم نہیں کرنی چاہئے۔
➍ کھجور کا درخت برکت والا درخت ہے۔
➎ بعض اوقات پہیلی نما سوال کرکے شاگردوں کے علم کا امتحان لیا جاسکتا ہے۔
➏ علم سمجھنے کے لئے پوری کوشش کے ساتھ ہر وقت مصروف رہنا چاہئے۔
➐ اگر شریعت کی مخالفت نہ ہو رہی ہو تو ہر وقت بڑوں کا احترام ضروری ہے۔
➑ کسی چیز کے ساتھ مشابہت کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں چیزیں ہر صفت میں ایک جیسی ہوں۔
➒ صحیح سچے مسلمان کا کتاب وسنت کے مطابق ہر کام خیر ہی خیر ہوتا ہے۔
➓ مزید فوائد کے لئے دیکھئے [فتح الباري 1/145 147 ح61]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 298
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 61
´لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 61]
تشریح:
اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ «حدثنا وحدثوني» خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔ پس ثابت ہو گیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروج ہیں۔ بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے «قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَـذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ» [66-التحريم:3] (اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس بارے میں کس نے خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اس نے خبر دی جو جاننے والا خبر رکھنے والا پروردگار عالم ہے۔) پس منکرین حدیث کی یہ ہفوات کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہے بالکل غلط اور قرآن مجید کے بالکل خلاف اور واقعات کے بھی خلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 61
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 62
´طالب علموں کا امتحان لینا`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 62]
تشریح:
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان «متوكل على الله» ہو کر ہر حال میں ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 62
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 131
´حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ:: 131]
تشریح:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آ چکی ہے۔ یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں شرم کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر شرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انہیں حاصل ہو جاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔ اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 131