الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
8. بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ: «لاَ أَدْرِي»:
8. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلایا۔
(8) Chapter. Whenever the Prophet (p.b.u.h.) was asked about something regarding which no Verse was revealed, he would either say, "I do not know," or give no reply, but he never gave a verdict based on opinion or on Qiyas.
حدیث نمبر: Q7309
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن مسعود سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الروح فسكت حتى نزلت الآية.وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ فَسَكَتَ حَتَّى نَزَلَتِ الآيَةُ.
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے یہاں تک کہ یہ آیت اتری۔

حدیث نمبر: 7309
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: سمعت ابن المنكدر، يقول: سمعت جابر بن عبد الله، يقول:" مرضت، فجاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، وابو بكر وهما ماشيان، فاتاني وقد اغمي علي، فتوضا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صب وضوءه علي، فافقت، فقلت: يا رسول الله، وربما قال سفيان، فقلت: يا رسول الله، كيف اقضي في مالي كيف اصنع في مالي؟، قال: فما اجابني بشيء حتى نزلت آية الميراث".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" مَرِضْتُ، فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي؟، قَالَ: فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا میں نے محمد بن المنکدر سے سنا، بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: I fell ill, Allah's Apostle and Abu Bakr came to visit me on foot. The Prophet came to me while I was unconscious. Allah's Apostle performed ablution and poured the Remaining water of his ablution over me whereupon I became conscious and said, 'O Allah's Apostle! How should I spend my wealth? Or how should I deal with my wealth?" But the Prophet did not give me any reply till the Verse of the laws of inheritance was revealed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 412


   صحيح البخاري6723جابر بن عبد اللهتوضأ رسول الله فصب علي وضوءه فأفقت كيف أصنع في مالي كيف أقضي في مالي فلم يجبني بشيء حتى نزلت آية المواريث
   صحيح البخاري6743جابر بن عبد اللهدخل علي النبي وأنا مريض فدعا بوضوء فتوضأ ثم نضح علي من وضوئه فأفقت لي أخوات فنزلت آية الفرائض
   صحيح البخاري5651جابر بن عبد اللهمرضت مرضا فأتاني النبي يعودني وأبو بكر وهما ماشيان فوجداني أغمي علي فتوضأ النبي ثم صب وضوءه علي فأفقت كيف أصنع في مالي كيف أقضي في مالي فلم يجبني بشيء حتى نزلت آية ال
   صحيح البخاري5676جابر بن عبد اللهدخل علي النبي وأنا مريض فتوضأ فصب علي فعقلت لا يرثني إلا كلالة فكيف الميراث فنزلت آية الفرائض
   صحيح البخاري4577جابر بن عبد اللهعادني النبي وأبو بكر في بني سلمة ماشيين فوجدني النبي لا أعقل شيئا فدعا بماء فتوضأ منه ثم رش علي فأفقت ما تأمرني أن أصنع في مالي فنزلت يوصيكم الله في أولادكم
   صحيح البخاري5664جابر بن عبد اللهجاءني النبي يعودني ليس براكب بغل ولا برذون
   صحيح البخاري7309جابر بن عبد اللهتوضأ رسول الله ثم صب وضوءه علي فأفقت كيف أقضي في مالي كيف أصنع في مالي قال فما أجابني بشيء حتى نزلت آية الميراث
   صحيح البخاري194جابر بن عبد اللهتوضأ وصب علي من وضوئه
   صحيح مسلم4148جابر بن عبد اللهدخل علي رسول الله وأنا مريض لا أعقل فتوضأ فصبوا علي من وضوئه فعقلت يرثني كلالة فنزلت آية الميراث
   صحيح مسلم4146جابر بن عبد اللهعادني النبي وأبو بكر في بني سلمة يمشيان فوجدني لا أعقل فدعا بماء فتوضأ ثم رش علي منه فأفقت كيف أصنع في مالي فنزلت يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين
   صحيح مسلم4145جابر بن عبد اللهمرضت فأتاني رسول الله وأبو بكر يعوداني ماشيين فأغمي علي فتوضأ ثم صب علي من وضوئه فأفقت كيف أقضي في مالي فلم يرد علي شيئا حتى نزلت آية الميراث يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة
   جامع الترمذي3851جابر بن عبد اللهجاءني رسول الله ليس براكب بغل ولا برذون
   جامع الترمذي3015جابر بن عبد اللهمرضت فأتاني رسول الله يعودني وقد أغمي علي فلما أفقت كيف أقضي في مالي فسكت عني حتى نزلت يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين
   سنن أبي داود2886جابر بن عبد اللهتوضأ وصبه علي فأفقت كيف أصنع في مالي ولي أخوات قال فنزلت آية المواريث يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة
   سنن أبي داود2887جابر بن عبد اللهلا أراك ميتا من وجعك هذا وإن الله قد أنزل فبين الذي لأخواتك فجعل لهن الثلثين قال فكان جابر يقول أنزلت هذه الآية في يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة
   سنن أبي داود3096جابر بن عبد اللهكان النبي يعودني ليس براكب بغل ولا برذون
   سنن النسائى الصغرى138جابر بن عبد اللهتوضأ رسول الله فصب علي وضوءه
   سنن ابن ماجه1436جابر بن عبد اللهعادني رسول الله ماشيا وأبو بكر وأنا في بني سلمة
   مسندالحميدي1264جابر بن عبد الله
   مسندالحميدي1265جابر بن عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7309  
´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلایا`
«. . . جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" مَرِضْتُ، فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي؟، قَالَ: فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ . . .»
. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7309]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7309 کا باب: «بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ: «لاَ أَدْرِي»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے یہ باب کئی فوائد پر مشتمل ہے، اور آپ رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے جو واضح کرنا چاہا وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب تک کسی مسئلے پر وحی کا نزول نہ ہوتا تو رائے نہ دیتے اور نہ ہی قیاس کرتے، اس کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتے کہ «لا أدري» کہ میں نہیں جانتا۔ تحت الباب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل فرمائی، جو تعلیقاً ذکر فرمائی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے بظاہر باب سے مناسبت ظاہر ہے، اس کے بعد جو حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس کا باب سے مطابقت ہونا معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ باب میں «لا أدري» کا ذکر ہے جبکہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ وارد نہیں ہیں، اسی وجہ سے علامہ کرمانی رحمہ اللہ یہ اعتراض کر بیٹھے کہ:
«وقال الكرماني فى قوله فى الترجمة لا أدري حزازة إذ ليس فى الحديث ما يدل عليه.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14]
کرمانی نے کہا کہ ترجمۃ الباب میں ان کے «لا أدري» لکھنے میں حزازت یعنی بےاعتدالی ہے کیوں کہ حدیث میں اس (الفاظ) پر کوئی چیز دلالت نہیں کرتی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے راقم ہیں:
«والذى يظهر أنه أشار فى الترجمة إلى ما ورد فى ذالك ولكنه لم يثبت عنده من شيئي على شرطه.»
ظاہر یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں اس بابت وارد کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اپنی شرط پر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ نقل نہیں کیا۔
کتب احادیث میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں یہ الفاظ «لا أدري» کے وارد ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان احادیث کو نقل فرماتے ہیں، مثلاً آپ لکھتے ہیں:
اس بابت متعدد روایات موجود ہیں (مثلاً) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: «أى البقاع خير» یعنی کون سا علاقہ بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا أدري» پھر حضرت جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال ان کے آگے رکھا تو انہوں نے بھی یہی کہا: «لا أدري»، تو فرمایا: «سل ربك فانتقض جبريل انتقاضة» ۔ [فتح الباري لابن حجر: 249/14]
لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «لا أدري» کے الفاظ تحت الباب نقل نہیں فرمائے بلکہ اس قسم کے الفاظ دیگر احادیث میں وارد ہیں، مگر آپ نے صرف اشارہ کر دیا باب کے ذریعے کیوں کہ وہ احادیث آپ کی شرط پر نہ تھیں۔

اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلق اجتہاد اور قیاس کی نفی نہیں فرما رہے بلکہ آپ رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پیچیدہ سوالات پر خاموش رہتے جس کے بارے میں شریعت میں اصول نہ تھے، اگر کسی سوال کے بارے میں شریعت میں پہلے سے ہی اصول موجود ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کو اس اصول پر قیاس فرماتے ( «كما لا يخفى على أهل العلم») چنانچہ اس اصولی گفتگو کو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب رحمہ اللہ کا قول نقل فرمایا ہے، آپ لکھتے ہیں:
«وقد نقل ابن بطال عن المهلب ما معناه إنما سكت النبى صلى الله عليه وسلم فى أشياء معضلة ليست لها أصول فى الشريعة، فلا بد فيها من اطلاع الوحي و إلا فقد شرع صلى الله عليه وسلم لأمته القياس، و أعلمهم كيفية الاستنباط فيما لا نص فيه، حيث قال للنبي سألته هل تحج عن أمها: فالله أحق بالقضاء، و هذا هو القياس فى لغة العرب.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14]
ابن بطال نے مہلب رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراصل ان پیچیدہ اشیاء کی بابت سوال ہونے پر خاموشی اختیار فرماتے جن کے لیے شریعت میں اصول نہ تھے تو ان میں وحی کا انتظار ضروری تھا، وگرنہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے قیاس مشروع کیا ہے اور انہیں کیفیت استنباط کی تعلیم دی ہے ان امور میں جن میں نص نہ ہو، مثلاً اس خاتون سے فرمایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ اپنی والدہ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: ( «فالله أحق بالقضاء») یہی لغت عرب میں قیاس ہے۔

علامہ مہلب رحمہ اللہ کی اس تفصیلی گفتگو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک خاموش رہتے جب تک وحی نازل نہ ہوتی، اور یہ ان پیچیدہ سوالات پر مبنی ہوتا جس کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں اتارا ہوتا، اگر کسی مسئلے پر شریعت نے کوئی حکم نازل کر دیا ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر قیاس فرماتے تھے، اس کی امثلہ کتب احادیث میں کثیر ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 300   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 138  
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے آئے، دونوں نے مجھے بیہوش پایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر آپ نے اپنے وضو کا پانی میرے اوپر ڈالا ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 138]
138۔ اردو حاشیہ: ظاہر تو یہ ہے کہ اس پانی سے مراد پانی ہے جس سے آپ نے وضو فرمایا، گویا ماء مستعمل پاک ہوتا ہے، نیز اس سے بچا ہوا پانی بھی مراد ہو سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 138   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 5676  
«ومستعمل وغير مستعمل»
مستعمل اور غیر مستعمل (پانی میں کوئی فرق نہیں)۔
مستعمل (استعمال شدہ) پانی طاہر (پاک) ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
❀ حضرت عروہ اور حضرت مسور رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
«وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریب ہوتے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے (بچے ہوئے) پانی کو لینے میں جھگڑا نہ شروع کر دیں۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 189، أحمد 329/4 - 330]
❀ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا تو لوگوں کی یہ حالت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے پانی کو حاصل کر کے اسے (اپنے جسموں پر) لگاتے تھے۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 187]
❀ جب جابر رضی اللہ عنہ مریض تھے تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضوء کا پانی ان پر بہایا۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى/ بَابُ وُضُوءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ:/ ح: 5676]
مستعمل پانی مطہر (یعنی پاک کرنے والا) بھی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کے اثبات کے لیے علماء کی طرف سے پیش کیے جانے والے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرنا تو محل نظر ہے لیکن یہ مسئلہ صحیح ثابت ہے۔
❀ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
«أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مِنْ فَضْلِ مَاءٍ كَانَ فِي يَدِهِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اسی زائد پانی سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں موجود تھا۔ [سنن ابي داود ح: 130] ۱؎
❀ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک ٹب میں غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹب سے وضو یا غسل کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ میں جنبی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ» بے شک پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ [أبو داود 68] ۲؎
واضح رہے کہ مستعمل پانی سے مراد فقہاء کے نزدیک ایسا پانی ہے جسے جنابت رفع کرنے کے لیے، یا رفع حدث (یعنی وضو یا غسل)کے لیے، یا ازالہ نجاست کے لیے، یا تقرب کی نیت سے اجر و ثواب کے کاموں (مثلاًً وضو پر وضو کرنا یا نماز جنازہ کے لیے، مسجد میں داخلے کے لیے، قرآن پکڑنے کے لیے وضو کرنا وغیرہ) میں استعمال کیا گیا ہو۔ [فتح القدير 58/1] ۳؎

مستعمل پانی کے حکم میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(ابوحنفیہ رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ) کسی حال میں بھی ایسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں۔ امام لیث رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مذہب منقول ہے۔
(مالکیہ) مستعمل پانی کی موجودگی میں تیمم جائز نہیں۔
(ابویوسف رحمہ اللہ) مستعمل پانی نجس ہے (یاد رہے کہ یہ اپنے قول میں منفرد ہیں)۔
(اہل ظاھر) مستعمل پانی اور مطلق پانی میں کوئی فرق نہیں (یعنی جیسے مطلق پانی طاہر و مطہر ہے اسی طرح مستعمل پانی بھی طاہر و مطہر ہے) امام حسن، امام عطاء، امام نخعی، امام زہری، امام مکحول، اور امام احمد رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب مروی ہے۔ [بدائع الصنائع 66/1] ۴؎
(راجح) مستعمل پانی طاہر ومطہر ہے جیسا کہ ابتدا میں دلائل ذکر کر دیے گئے ہیں۔
(شوکانی رحمہ اللہ) مستعمل پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [نيل الأوطار 85/1]
(ابن رشد رحمہ اللہ) مستعمل پانی حکم میں مطلق پانی کی طرح ہی ہے۔ [بداية المجتهد 55/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) حق بات یہی ہے کہ مجرد استعال کی وجہ سے پانی پاک کرنے والی صفت سے خارج نہیں ہوتا۔ [الروضة الندية 68/1]
(ابن حزم رحمہ اللہ) استعمال شدہ پانی کے ساتھ غسل جنابت اور وضو جائز ہے قطع نظر اس سے کہ دوسرا پانی موجود ہو یا نہ ہو۔ [المحلى بالآثار 182/1]

استعمال شدہ پانی کو مطہرنہ کہنے والوں کے دلائل اور ان پر حرف تنقید
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر وہ دونوں اکٹھے چلو بھریں تو اس میں کوئی مضائقہ ہیں۔ [سنن ابن ماجه/ ح: 374] ۵؎
اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ جواز کی احادیث کے قرینہ کی وجہ سے اس حدیث کی ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کیا جائے گا۔ [سبل السلام 26/1]
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم/ 323] ۶؎
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري/ ح 239]
ان کے نزدیک (مذکورہ حدیث میں) ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں پانی مستعمل ہو کر غیر مطہر نہ ہو جائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجو نہیں بلکہ منع کا سبب زیادہ سے زیادہ صرف یہی ہے کہ کہیں پانی خراب نہ ہو جائے اور اس کا نفع جاتا رہے اس بات کی تائید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے ہوتی ہے کو وہ شخص اسے (یعنی پانی کو) باہر نکال کر استعمال کر لے۔ [نيل الأوطار 58/1] ۷؎
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ہم نے احناف کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں سے عجیب ترین قول یہ ہے کہ ایک صاف ستھرے طاہر مسلمان کے وضو کا مستعمل پانی مردہ چوہے سے زیادہ نجس ہے۔ [المحلى بالآثار 150/1]
------------------
۱؎ [حسن: صحيح أبو داود 120، كتاب الطهارة: باب صفة وضوء النبى، أبو داود 130، تر مذي 33]
۲؎ [صحيح: صحيح أبو داود 16، كتاب الطهارة: باب الماء لا يجنب أبو داود 68، ابن ماجة 364، عارضة الأحوذي 82/1]
۳؎ [كشاف القناع 31/1-37، المغني 10/1، ہداية المجتهد 26/1، بدائع الصنائع 69/1، الدر المختار 182/1، فتح القدير 58/1]
۴؎ [والمجموع 151/1، المبسوط 46/1، بدائع الصنائع 66/1، مختصر الطحاوي 16، المغني 47/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/40، اللباب 76/1، الأصل 125/1]
۵؎ [صحيح: صحيح ابن ماجه 300، كتاب الطهارة وسننها: باب النهي عن ذلك، ابن ماجة 374، طحاوي 64/1، دار قطني 26/1]
۶؎ [مسلم 323، كتاب الحيض: باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، احمد 366/1، بيهقي 188/1]
۷؎ [نيل الأوطار 58/1، السيل الجرار 57/1، المحلي 186/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 135   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3015  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے اس وقت مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، پھر جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: میں اپنے مال میں کس طرح تقسیم کروں؟ آپ یہ سن کر خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیات «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين» نازل ہوئیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3015]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (النساء: 11)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3015   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2886  
´کلالہ کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بیمار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے دیکھنے کے لیے پیدل چل کر آئے، مجھ پر غشی طاری تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات نہ کر سکا تو آپ نے وضو کیا اور وضو کے پانی کا مجھ پر چھینٹا مارا تو مجھے افاقہ ہوا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال کیا کروں اور بہنوں کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، اس وقت میراث کی آیت «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے (سورۃ النساء: ۱۷۶)، اتری ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2886]
فوائد ومسائل:
فائدہ: (کلالہ) سے مراد وہ میت ہے جس کے وارثو ں میں نہ کوئی اولاد ہو اور نہ والدین، دیگر رشتہ داروں یا نہ، یہ الگ بات ہے۔
آیت کی تفسیر، تفاسیر میں دیکھ لی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2886   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7309  
7309. سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے۔ جب یہ حضرات میرے پاس پہنچے تو مجھ پر غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے متعلق کس طرح فیصلہ کروں؟ میں اپنے مال کا کیا کروں؟ آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7309]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے آپ کا سکوت نکلا‘ وحی اترنے تک لیکن یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتا ابن حبان کی روایت میں ہے‘ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سی جگہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں جانتا۔
دار قطنی اور حاکم کی روایت میں ہے آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا حدود گناہ کرنے والوں کا کفارہ ہیں یا نہیں۔
مہلب نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعضے مشکل مقالات میں سکوت فرمایا لیکن آپ ہی نے اپنی امت کو قیاس کی تعلیم فرمائی۔
ایک عورت سے فرمایا اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا تو ادا کرتی یا نہیں؟ تو اللہ کا حق ضرور ادا کرنا ہوگا۔
یہ عین قیاس ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بالکل قیاس نہ کرنا چاہیے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قیاس جو اصول شرعیہ کے خلاف ہو یا کسی دلیل شرعی پر مبنی نہ ہو صرف ایک خیالی بات ہو نہ کرنا چاہیے اور یہ مسئلہ تو علماء کا اجماعی ہے کہ نص موجود ہوتے ہوئے قیاس جائز نہیں اور جو شخص حدیث کا خلاف کرے حالانکہ وہ دوسری حدیث سے اس کا معارضہ نہ کرتا ہو نہ اس کے نسخ کا دعویٰ کرے نہ اس کی سند میں قدح کرے تو اس کی عدالت جاتی رہے گی وہ لوگوں کا امام کہاں ہو سکتا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ تو سر اور آنکھوں پر ہے اور صحابہ کے مختلف قولوں میں سے ہم کوئی قول چن لیں گے میں کہتا ہوں بس حنفیہ کو اپنے امام کے قول پر تو کم از کم چلنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7309   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7309  
7309. سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے۔ جب یہ حضرات میرے پاس پہنچے تو مجھ پر غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے متعلق کس طرح فیصلہ کروں؟ میں اپنے مال کا کیا کروں؟ آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7309]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایسی چیز کے متعلق سوال کیاجاتا جس کے بارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے یا فرماتے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے، عقل وقیاس سے جواب نہ دیتے تھے۔
جب وحی آتی تو اس کا جواب دیتے۔
پھر وحی عام ہے کہ قرآن کی شکل میں آتی یا بیان کی صورت میں۔
بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر دینی مسائل کا جواب نہ دیتے تھے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے،جو کہتے ہیں وہ نازل کی ہوئی وحی ہوتی ہے۔
(النجم: 3، 4)

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا، چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
جسے کسی چیز کے متعلق علم ہو اس کے مطابق جواب دے اور جسے علم نہ ہو وہ اللہ اعلم کہہ دے۔
یہ کہہ دینا بھی اس کےعالم ہونے کی علامت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تعلیم دی ہے، پھر انہوں نے سورہ ص آیت: 86 تلاوت کی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4809)
ایسےموقع پر خاموشی اختیا رکرنے کی مثال تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود بیان کردی ہے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 125)
اور (لا أدري)
کہنے کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے:
مجھے معلوم نہیں کہ حدود، گناہ کے مرتکب کے لیے کفارہ ہیں یا نہیں۔
(المستدرك للحاکم: 450/2)

واضح رہے کہ علم سے مراد وہ معلومات ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ذریعے سے فراہم ہوں اور جو معلومات ان سے بالا بالا حاصل کی جائیں وہ شریعت کی نظر میں علم نہیں ہے۔

سوالات کا جواب دینے میں سلف صالحین کی تین قسمیں ہیں:
الف۔
صرف قرآن وحدیث اور اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھن اجمعین کی روشنی میں جواب دیتے۔
اگر ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہوتی تو خاموشی اختیار کرتے۔
ب۔
انھوں نے رائے اور قیاس کو استعمال کرتے ہوئے جوابات دیے، پھر فرضی مسائل کے ڈھیر لگا دیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی لوگوں کی تردید کرتے ہیں۔
ج۔
جب ان کے پاس قرآن وحدیث سے کوئی دلیل ہوتی تو اس کی روشنی میں جواب دیتے بصورت دیگر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے عقل اورقیاس سے جواب دیتے۔
یہ آخری قابل ستائش اور لائق تعریف ہے۔
(فتح الباري: 357/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7309   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.