الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
متفرق مضامین کی احادیث
विभिन्न विषयों के बारे में हदीसें
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
४. “ बुरे अख़लाक़ और आदतों से डराना ”
حدیث نمبر: 1300
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا» .‏‏‏‏ اخرجه البخاري.وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا» .‏‏‏‏ أخرجه البخاري.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فوت شدگان کو گالی نہ دو کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس تک وہ پہنچ چکے ہیں۔ (بخاری)
हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ मृतकों को गाली न दो क्यूंकि उन्हों ने जो कुछ किया था उस तक वह पहुंच चुके हैं।” (बुख़ारी)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الرقاق، باب سكرات الموت، حديث:6516.»

A’ishah (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Avoid reviling the dead, they have already seen the result of (the deeds) that they forwarded before them.” Related by Al-Bukhari.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري6516عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
   صحيح البخاري1393عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
   سنن النسائى الصغرى1938عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
   بلوغ المرام1300عائشة بنت عبد الله‏‏‏‏لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا
   بلوغ المرام482عائشة بنت عبد اللهلا تسبوا الاموات،‏‏‏‏ فإنهم قد افضوا إلى ما قد قدموا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1300  
فوت شدہ لوگوں کو گالی مت دو۔
«‏‏‏‏وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا .‏‏‏‏ اخرجه البخاري»
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کو گالی مت دو کیونکہ یقیناً وہ اس چیز کی طرف پہنچ چکے جو انہوں نے آگے بھیجی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1300]

تخریج:
[بخاري 6516]،
تحفۃ الاشراف [2/293 ]

مفردات:
«لَا تَسُبُّوا» «سَبَّ» «يَسُبُّ» ( «نصر» «ينصر») سے نہی کا صیغہ ہے یہ دراصل «سَبَّةٌ» ‏‏‏‏ سے مشتق ہے جس کا معنی ( «است») دبر ہوتا ہے «سَبَّهُ اَيْ طَعَنَهُ فِى اِسْتِهِ» یعنی اس نے اسے دبر میں کچوکا لگایا۔ اسی طرح یہ قبیح گالی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی مخفی اعضاء کا تذکرہ صاف لفظوں میں یا کنائے کے ساتھ کر کے کسی کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

فوائد:
مردوں کو گالی دینا کیوں منع ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ لوگوں کو گالی دینے سے منع فرمایا خواہ مسلمان ہوں یا کافر اور اس کی دو وجہیں بیان فرمائیں۔ ایک تو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کے پاس پہنچ چکے اب انہیں اس کا بدلہ مل رہا ہے۔ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا مالک خود ہی ان سے نمٹ لے گا۔
دوسری وجہ ترمذی میں مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں کو گالی مت دو کیونکہ ایسا کرنے سے تم زندہ لوگوں کو ایذاء دو گے۔ [ ترمذي: 1982 ]
البانی نے اسے صحیح کہا ہے، دیکھئے السلسلہ الصحیحہ [2397] کیونکہ کوئی شخص بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے عزیزوں کو گالی دی جائے خواہ وہ کافر ہی ہوں۔

قرآن وحدیث میں کفار کی برائیاں کیوں بیان کی گئی ہیں:
مردوں کو گالی دینے کی حرمت کے باوجود قرآن و حدیث میں بہت سے فوت شدہ کفار کی برائیاں بیان کی گئی ہیں۔ بعض علماء نے اسے مردوں کو گالی مت دو کے منافی سمجھ کر اس کی توجیہ کی ہے کہ یہ اس حکم سے مستثنیٰ صورت ہے جیسا کہ غیبت کی بعض صورتیں حرمت سے مستثنیٰ ہیں۔
مگر اصل بات یہ ہے کہ کسی کافر کی غیبت سے منع کیا ہی نہیں گیا نہ ہی اس کی برائی بیان کرنا منع ہے بلکہ اگر مقصد کسی کو کسی شخص کے شر سے بچانا ہو یا شہادت ادا کرنا ہو تو مسلمان کی برائی بھی بیان کر سکتا ہے۔ اس حدیث میں جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ سب و شتم ہے۔ گندی گالی دینا۔ مردوں کو گالی دینا حرام ہے خواہ وہ مسلمان یوں یا کافر، کیونکہ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص زندہ ہے اور وہ گالی دینے میں پہل کرتا ہے تو اسے جواب میں اتنی ہی گالی دینا جائز ہے گو صبر افضل ہے۔ اسی طرح زندہ کافر کو ذلیل کرنے کے لیے گالی دینا جائز ہے۔ جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا:
«امصص بظر اللات انحن نفر عنه؟»
جاؤ لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟
اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے احد کے دن سباع کو کہا تھا:
«يا ابن ام انمار مقطعة البطور» [صحيح بخاري، المغازي 25]
اے عورتوں کی شرم گاہوں کا ختنہ کرنے والی ام انمار کے بیٹے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 210   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1300  
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فوت شدگان کو گالی نہ دو کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس تک وہ پہنچ چکے ہیں۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1300»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الرقاق، باب سكرات الموت، حديث:6516.»
تشریح:
اس حدیث میں کسی بھی مرنے والے کو برا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ مردے کو گالی دینے کی وجہ سے اس کے لواحقین کو اذیت پہنچتی ہے جو باہمی دشمنی اور عداوت کا باعث بن سکتی ہے۔
ویسے بھی یہ لغو اور فضول سی بات ہے کیونکہ مرنے والا اپنے مالک کے پاس پہنچ چکا‘ اب اس کا معاملہ اس کے سپرد ہے‘ سزا دے یا نہ دے۔
کسی کے گالی دینے سے اسے کیا فرق پڑے گا۔
پھر یہ کون سی شرافت ہے کہ جو جوابی کارروائی کی حالت میں نہیں اسے گالی دی جائے۔
اسے گالی گلوچ کرنے سے سوائے اپنے نفس کو جلانے کے کیا حاصل؟
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1300   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 482  
´مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اس تک پہنچ چکے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 482]
لغوی تشریح:
«لَا تَسُبُّوا» «سَبٌّ» سے ماخوذ ہے۔
باب «نَصَر» «يَنْصُرُ» ہے۔ گالی گلوچ، سب و شتم، برے اور قبیح وصف بیان کرنا۔
«أفْضَوْا» «إفضاء» سے ماخوذ ہے۔ پہنچ گئے ہیں، پا چکے ہیں۔
«إلٰي مَاقَدّٰمُوا» جو اعمال و افعال وہ آگے بھیج چکے ہیں۔ یہ تقدیم سے ماخوذ ہے۔
«فَتُؤدُو الّٔاحْيَاءَ» «إيذاء» سے ماخوذ ہے، یعنی تمہارا مردوں کو برا بھلا کہنا اور سب و شتم کرنا اس کے زندہ ورثاء و اقرباء کے لیے باعث اذیت ہے کیونکہ مرنے والوں کا ان سے قرابت داری کا تعلق ہے۔

«فائده:»
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ کسی فوت ہونے والے کا اس انداز سے تذکرہ کرنا، بالخصوص مسلمان کا، جو اس کے عزیز و اقارب کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہو، باہمی لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 482   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.