وعن عطية القرظي رضي الله تعالى عنه قال: عرضنا على النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم قريظة فكان من انبت قتل ومن لم ينبت خلي سبيله فكنت ممن لم ينبت فخلي سبيلي. رواه الخمسة وصححه ابن حبان والحاكم.وعن عطية القرظي رضي الله تعالى عنه قال: عرضنا على النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم قريظة فكان من أنبت قتل ومن لم ينبت خلي سبيله فكنت ممن لم ينبت فخلي سبيلي. رواه الخمسة وصححه ابن حبان والحاكم.
سیدنا عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنوقریظہ سے جنگ کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا، جس کے زیر ناف بال اگے ہوتے تھے، اسے قتل کر دیا گیا اور جس کے نہیں اگے تھے اسے چھوڑ دیا گیا۔ میں بھی ان میں سے تھا جس کے بال نہیں اگے تھے، لہٰذا مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अतीया क़ुरेज़ी रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि बनु क़ुरैज़ा से जंग के समय पर हमें नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के सामने लाया गया, जिस के नाफ़ के नीचे के बाल उगे होते थे, उसे क़त्ल कर दिया गया और जिस के नहीं उगे थे उसे छोड़ दिया गया। मैं भी उन में से था जिस के बाल नहीं उगे थे, इस लिए मुझे भी छोड़ दिया गया। इसे पांचों ने रिवायत किया है। इब्न हब्बान और हाकिम ने इसे सहीह ठहराया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب في الغلام يصيب الحد، حديث:4404، والترمذي، السير، حديث:1584، وقال: حسن صحيح، وابن ماجه، الحدود، حديث:2541، والنسائي، قطع السارق، حديث:4984، وغيره، وأحمد:4 /310، 5 /312، وابن حبان (الإحسان):7 /137، حديث:4760، والحاكم:3 /35، وابن الجارود، حديث:1045.»
Narrated 'Atiyyah al-Qurazi (RA):
We were brought before the Prophet (ﷺ) on the day of Quraizah. Those who had began to grow hair (on their private parts) were killed, while who had not, were set free. I was among those who had not begun to grow hair, so I was set free. [Reported by al-Arba'a. Ibn Hibban and al-Hakim graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 732
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان` سیدنا عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنوقریظہ سے جنگ کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا، جس کے زیر ناف بال اگے ہوتے تھے، اسے قتل کر دیا گیا اور جس کے نہیں اگے تھے اسے چھوڑ دیا گیا۔ میں بھی ان میں سے تھا جس کے بال نہیں اگے تھے، لہٰذا مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 732»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب في الغلام يصيب الحد، حديث:4404، والترمذي، السير، حديث:1584، وقال: حسن صحيح، وابن ماجه، الحدود، حديث:2541، والنسائي، قطع السارق، حديث:4984، وغيره، وأحمد:4 /310، 5 /312، وابن حبان (الإحسان):7 /137، حديث:4760، والحاكم:3 /35، وابن الجارود، حديث:1045.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ» قرظی کے ”قاف“ پر ضمہ اور ”را“ پر فتحہ ہے۔ بنو قریظہ کی طرف نسبت کی وجہ سے قرظی کہلائے۔ صغیر صحابی ہیں۔ ان سے ایک ہی حدیث مروی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوفہ میں سکونت پذیر ہو گئے تھے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں ان کے والد کے نام سے واقف نہیں ہو سکا۔ ان سے مجاہد وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 732