الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
خرید و فروخت کے مسائل
ख़रीदने और बेचने के नियम
13. باب الشفعة
13. شفعہ کا بیان
१३. अश-शुफ़अह “ सह मालिक की हिस्सेदारी की बिक्री ”
حدیث نمبر: 762
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن انس بن مالك رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏جار الدار احق بالدار» .‏‏‏‏رواه النسائي وصححه ابن حبان وله علة.وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏جار الدار أحق بالدار» .‏‏‏‏رواه النسائي وصححه ابن حبان وله علة.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکان کا ہمسایہ اس مکان کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے لیکن اس میں علت ہے۔
हज़रत अनस बिन मलिक रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “मकान का पड़ोसी उस मकान का अधिक अधिकार रखता है।” इसे निसाई ने रिवायत किया है और इब्न हब्बान ने इसे सहीह कहा है लेकिन इस की वजह है।

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في الشفعة، حديث:3517، والترمذي، الأحكام، حديث:1368، والنسائي: لم أجده، وابن حبان (الإحسان):7 /309، حديث:5159.»

Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Messenger (ﷺ) said: "The neighbor of the house has the most right to buy it." [Reported by an-Nasa'i. Ibn Hibban graded it Sahih (authentic), but it (this chain from Qatada from Anas) has a defect].
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: حسن

   سنن أبي داود3517سمرة بن جندبجار الدار أحق بدار الجار أو الأرض
   بلوغ المرام762سمرة بن جندب جار الدار أحق بالدار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3517  
´شفعہ کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھر کا پڑوسی پڑوسی کے گھر اور زمین کا زیادہ حقدار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3517]
فوائد ومسائل:

شفعہ شفع سے ماخوز ہے اور لغت میں اس کے معنی جوڑا ہونا۔
اضافہ کرنا۔
اوراعانت کرنا آتے ہیں۔
شرعاً یہ ہے کہ ''مشترک یا ملحق زمین ومکان کو فروخت کرتے وقت شریک ساتھی کو جو حق خریداری کا اولین حق رکھتا تھا۔
بتائے بغیر کسی اور کو منتقل کردیا گیا ہو۔
تو اسے واپس لوٹانا۔
شفعہ کہلاتا ہے۔
بشرط یہ ہے کہ قیمت وہی ہو جو اجنبی نے دی ہو۔


حدیث۔
1516۔
3515۔
میں ہمسائے سے مراد شریک ہے۔
جیسا کہ متعدد روایات میں صراحت ہے۔
اسی کی تایئد حدیث 3518 سے بھی ہوتی ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ جس ہمسائے کا راستہ ایک ہو وہی ہمسایہ شفعہ کا حقدار ہوگا۔
اگر راستہ مشترک نہ ہو۔
بلکہ الگ الگ ہو ایک دوسرے کی حدود متعین ہوں تو پھر محض ہمسایہ ہونے کی بنا پردہ شفعہ کا حق دار نہیں ہوگا۔
شفعہ کا حق دارصرف وہی ہوگا جو زمین یا باغ میں شریک ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3517   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.