الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
خرید و فروخت کے مسائل
ख़रीदने और बेचने के नियम
17. باب الوقف
17. وقف کا بیان
१७. “ समर्पित माल के नियम ”
حدیث نمبر: 787
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عمر على الصدقة الحديث وفيه: «‏‏‏‏واما خالد فقد احتبس ادراعه واعتاده في سبيل الله» . متفق عليه.وعن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عمر على الصدقة الحديث وفيه: «‏‏‏‏وأما خالد فقد احتبس أدراعه وأعتاده في سبيل الله» . متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو صدقات کی وصولی پر مقرر فرما کر بھیجا۔ (الحدیث) اور اس میں ہے کہ رہا خالد (رضی اللہ عنہ) تو انہوں نے اپنی تمام زرہیں اللہ کے راستے میں وقف کر دی ہیں۔ (بخاری ومسلم)
हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने हज़रत उमर रज़ि अल्लाहु अन्ह को सदक़ात (दान) की वसूली पर नियुक्त कर के भेजा। (अलहदीस)
और इस में है कि “रहा ख़ालिद (रज़ि अल्लाहु अन्ह) तो उन्हों ने अपनी सारी ज़रहें अल्लाह के रास्ते में समर्पित कर दी हैं।” (बुख़ारी और मुस्लिम)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب قول الله تعالي:(وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله)، حديث:1468، ومسلم، الزكاة، باب في تقديم الزكاة ومنعها، حديث:983.»

Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Messenger (ﷺ) sent 'Umar (RA) to collect Sadaqah..." The narrator reported the Hadith and it contains: "As for Khalid, he has kept back his coats of mail and weapons to use them in Allah's Cause." [Agreed upon].
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   سنن النسائى الصغرى2466عبد الرحمن بن صخرما ينقم ابن جميل إلا أنه كان فقيرا فأغناه الله وأما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا قد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله وأما العباس بن عبد المطلب عم رسول الله فهي عليه صدقة ومثلها معها
   صحيح البخاري1468عبد الرحمن بن صخرعم رسول الله فهي عليه صدقة ومثلها معها
   صحيح مسلم2277عبد الرحمن بن صخرما ينقم ابن جميل إلا أنه كان فقيرا فأغناه الله وأما خالد فإنكم تظلمون خالدا قد احتبس أدراعه وأعتاده في سبيل الله أما العباس فهي علي ومثلها معها عم الرجل صنو أبيه
   سنن أبي داود1623عبد الرحمن بن صخرما ينقم ابن جميل إلا أن كان فقيرا فأغناه الله وأما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا فقد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله أما العباس عم رسول الله فهي علي ومثلها عم الرجل صنو الأب أو صنو أبيه
   بلوغ المرام747عبد الرحمن بن صخربعث رسول الله عمر على الصدقة
   بلوغ المرام787عبد الرحمن بن صخر وأما خالد فقد احتبس أدراعه وأعتاده في سبيل الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 787  
´وقف کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو صدقات کی وصولی پر مقرر فرما کر بھیجا۔ (الحدیث) اور اس میں ہے کہ رہا خالد (رضی اللہ عنہ) تو انہوں نے اپنی تمام زرہیں اللہ کے راستے میں وقف کر دی ہیں۔ (بخاری ومسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 787»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الزكاة، باب قول الله تعالي:(وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله)، حديث:1468، ومسلم، الزكاة، باب في تقديم الزكاة ومنعها، حديث:983.»
تشریح:
1. سبل السلام میں ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز پر زکاۃ فرض ہوتی ہے اسے وقف کرنا صحیح ہے بایں طور کہ اس کی زکاۃ سے آلات حرب و ضرب جہاد فی سبیل اللہ کے لیے حاصل کیے جائیں۔
2. اور یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ساز و سامان اور حیوان کو بھی وقف کرنا درست ہے‘ اس لیے کہ «أَعْتَاد» کی تفسیر میں گھوڑے بھی آتے ہیں۔
3. اور یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ زکاۃ کو آٹھ مصارف زکاۃ میں سے صرف ایک پر بھی خرچ کرنا جائز ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت خالد رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسلیمان ان کی کنیت ہے۔
سلسلۂ نسب یوں ہے: خالد بن ولید بن مغیرہ مخزومی قریشی۔
ان کی والدہ کا نام عصماء تھا اور انھی کو لبابہ صغریٰ بھی کہا گیا ہے۔
یہ حارث کی بیٹی اور ام فضل (زوجۂ عباس رضی اللہ عنہا) کی چھوٹی بہن تھی۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے پہلے ۸ ہجری میں اسلام قبول کیا۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انھوں نے ۵ یا ۶ ہجری میں اسلام قبول کیا۔
فتح مکہ‘ غزوئہ حنین اور تبوک میں حاضر ہوئے اور غزوئہ موتہ کے روز ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سیف اللہ کا لقب عنایت فرمایا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتنۂ ارتداد کے موقع پر انھیں عامل مقرر فرمایا۔
اس کے بعد اہل فارس سے نبرد آزما ہوئے۔
پھر انھیں شام کی طرف بھیجا۔
انھوں نے شام کا اکثر علاقہ فتح کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انھیں معزول کرنے تک فوج کے قائد رہے۔
معزولی کے بعد حمص میں جاگزیں ہوگئے۔
تادم آخر یہیں قیام پذیر رہے۔
۲۱ہجری میں وفات پائی اور حمص سے ایک میل کے فاصلے پر واقع ایک بستی میں انھیں دفن کیا گیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 787   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 747  
´شراکت اور وکالت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زکٰوۃ وصول کرنے پر تحصیلدار مقرر فرمایا۔ (الحدیث) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 747»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الزكاة، باب قول الله تعالي: "وفي الرقاب الغارمين وفي سبيل الله"، حديث:1468، ومسلم، الزكاة، باب في تقديم الزكاة ومنعها، حديث:983.»
تشریح:
1. اس حدیث کو یہاں وکالت کے اثبات میں نقل کیا گیا ہے۔
2.مکمل حدیث کا مفہوم اس طرح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ابن جمیل‘ حضرت عباس اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم نے اپنی زکاۃ ادا نہیں کی۔
آپ نے فرمایا: ابن جمیل غریب و مفلس تھا اسے یہی بات راس نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مالدار اور غنی کردیا ہے۔
(یہ منافق تھا اس نے بعد میں توبہ کی اور سچا مسلمان بن گیا۔
)
اور رہی عباس رضی اللہ عنہ کی زکاۃ! تو وہ میرے ذمے ہے‘ اور اس کے برابر اور بھی (کیونکہ میں ان سے دو سال کی زکاۃ پیشگی وصول کر چکا ہوں۔
)
اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے زکاۃ کا مطالبہ کر کے تم اس پر زیادتی کرتے ہو اس نے تو اپنا اسلحہ‘ سواریاں اور زر ہیں (گویا سارا مال و متاع) اللہ کے لیے وقف کر رکھا ہے تو اس سے زکاۃ کا تقاضا کیسا؟ 3. اس سے معلوم ہوا کہ سربراہ مملکت زکاۃ وصول کرنے کی ذمہ داری کسی مناسب شخص پر ڈال سکتا ہے۔
اور اسی لیے یہ روایت یہاں ذکر کی گئی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 747   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1623  
´وقت سے پہلے زکاۃ نکال دینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس رضی اللہ عنہم نے (زکاۃ دینے سے) انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن جمیل اس لیے نہیں دیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اس کو غنی کر دیا، رہے خالد بن ولید تو خالد پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور سامان جنگ اللہ کی راہ میں دے رکھے ہیں ۱؎، اور رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی قدر اور ہے ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ چچا والد کے برابر ہے۔‏‏‏‏ راوی کو شک ہے «صنو الأب» کہا، یا «صنو أبيه» کہا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1623]
1623. اردو حاشیہ:
➊ ابن القصار مالکی اوربعض دیگر علماء سے قاضی عیاض نے نقل کیا ہے۔ کہ مزکورہ بالا واقعہ کسی نفلی صدقہ سے متعلق ہے۔ورنہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے ممکن نہیں کہ وہ انکار کرتے۔مگر صحیحین کا سیاق فرضی زکواۃ کے متعلق ہی ہے۔ ابن جمیل پرعتاب آمیز تعریض ہے۔ حضرت خالد پرزکواۃ لازم ہی نہ تھی۔کیونکہ وہ اپنا مال اللہ کی راہ میں دے چکے تھے۔اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ ﷺ دو سال کی زکواۃ پیشگی لے چکے تھے۔جیسے کہ ابودائود طیالسی مسند بزار اور سنن دارقطنی کی روایات سے ثابت ہوتا ہ ے۔اور اس میں یہی استدلال ہے کہ قبل از وقت زکواۃ نکالی جاسکتی ہے۔(نیل الاوطار 169/4)ابن جمیل کے واقعے سے بھی یہ استدلال ہے۔کہ اگر کوئی زکواۃ سے مانع ہو مگر مسلح انداز سے مقابلہ نہ کرے۔ تو اس سے زکواۃ جبراً لی جائے گی۔اس سے بڑھ کر اس پرکوئی عتاب نہیں۔ بخلاف اس کیفیت کے جو خلافت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مانعین زکواۃ نے اختیار کی تھی کہ مسلح ہوکر حکومت اسلامیہ کے مقابلے میں آگئے تھے۔تو ان سے قتال کیاگیا۔
➋ چچا کا ادب واحترام ویسا ہی کرناچاہیے جیسے کہ باپ کا ہوتا ہے۔کیونکہ وہ باپ کا بھائی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1623   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.