الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
42. باب مَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ:
42. باب: رکوع اور سجدہ میں کیا کہے۔
Chapter: What Is To Be Said While Bowing And Prostrating
حدیث نمبر: 1088
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن المثنى ، حدثني عبد الاعلى ، حدثنا داود ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يكثر من قول: " سبحان الله وبحمده، استغفر الله واتوب إليه، قالت: فقلت: يا رسول الله، اراك تكثر من قول سبحان الله وبحمده، استغفر الله واتوب إليه؟ فقال: " خبرني ربي، اني سارى علامة في امتي، فإذا رايتها، اكثرت من قول سبحان الله وبحمده، استغفر الله واتوب إليه، فقد رايتها إذا جاء نصر الله والفتح سورة النصر آية 1، فتح مكة، ورايت الناس يدخلون في دين الله افواجا {2} فسبح بحمد ربك واستغفره إنه كان توابا {3} سورة النصر آية 2-3 ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُكْثِرُ مِنْ قَوْلِ: " سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَاكَ تُكْثِرُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ؟ فَقَالَ: " خَبَّرَنِي رَبِّي، أَنِّي سَأَرَى عَلَامَةً فِي أُمَّتِي، فَإِذَا رَأَيْتُهَا، أَكْثَرْتُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، فَقَدْ رَأَيْتُهَا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1، فَتْحُ مَكَّةَ، وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا {2} فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا {3} سورة النصر آية 2-3 ".
عامر (شعبی) نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ فرمایا کرتے تھے: میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں اس کی حمد کے ساتھ، میں اللہ سے بخشش کا طلب گار ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے کہا: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ بکثرت کہتے ہیں: سبحان اللہ وبحمدہ، أستغفر اللہ وأتوب إلیہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو آپ نے فرمایا: میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ میں جلدی ہی اپنی امت میں ایک نشانی دیکھوں گا اور جب میں اس کو دیکھ لوں توبکثرت کہوں: سبحان اللہ وبحمدہ، أستغفر اللہ وأتوب إلیہ تو (وہ نشانی) میں دیکھ چکا ہوں۔ جب اللہ کی نصرت اور فتح آ پہنچے (یعنی) فتح مکہ اور آپ لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھ لیں تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کریں اور اس سے بخشش طلب کریں بلاشبہ وہ توبہ قبول فرمانے والا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت فرماتے: اللہ تو اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے، میں اللہ سے بخشش کا طالب ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم!میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ بکثرت دعا کرتے ہیں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ میں جلد ہی اپنی امت میں ایک نشانی دیکھوں گا۔ اور جب میں اس کو دیکھ لوں تو بکثرت کہوں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، تو میں نشانی دیکھ چکا ہوں، (جب اللہ کی نصرت اور فتح آ پہنچے، اور آپ لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھیں یا دیکھ لیں تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ، اس کی تسبیح بیان کیجئے اور اس سے بخشش طلب کیجئے، بلاشبہ وہ قبول فرمانے والا ہے۔)
ترقیم فوادعبدالباقی: 484

   صحيح البخاري794عائشة بنت عبد اللهيقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح البخاري4293عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح البخاري817عائشة بنت عبد اللهيكثر أن يقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   صحيح البخاري4967عائشة بنت عبد اللهسبحانك ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح البخاري4968عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   صحيح مسلم1087عائشة بنت عبد اللهسبحانك ربي وبحمدك اللهم اغفر لي
   صحيح مسلم1088عائشة بنت عبد اللهخبرني ربي أني سأرى علامة في أمتي فإذا رأيتها أكثرت من قول سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه فقد رأيتها إذا جاء نصر الله
   صحيح مسلم1085عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن أبي داود877عائشة بنت عبد اللهيكثر أن يقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن النسائى الصغرى1123عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن النسائى الصغرى1048عائشة بنت عبد اللهيقول في ركوعه وسجوده سبحانك ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   سنن النسائى الصغرى1124عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   سنن ابن ماجه889عائشة بنت عبد اللهيكثر أن يقول في ركوعه وسجوده سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفر لي يتأول القرآن
   بلوغ المرام231عائشة بنت عبد اللهسبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي
   المعجم الصغير للطبراني1072عائشة بنت عبد الله قبل أن يموت يكثر أن يقول : سبحانك اللهم وبحمدك ، أستغفرك وأتوب إليك ، قلت : يا رسول الله ، إني أراك تكثر أن تقول : سبحانك اللهم وبحمدك ، أستغفرك وأتوب إليك ؟ ، فقال : إني أمرت بأمر ، فقرأ : إذا جاء نصر الله والفتح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 231  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول في ركوعه وسجوده: «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» . متفق عليه. . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفرلي» تو پاک ہے اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! اپنی حمد و ثنا کے ساتھ۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ پڑھا کرتے۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 231]

لغوی تشریح:
«وَبِحَمْدِكَ» اس میں واؤ عاطفہ ہے۔ میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں اور تیری حمد و توصیف میں محو ہوتا ہوں۔ اور اس کا بھی احتمال ہے کہ واؤ حالیہ ہو۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اس حال میں کہ میں تیری حمد وثنا میں محو ہونے والا ہوں۔ رکوع و سجود کے لیے متعدد اذکار اور دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ نمازی ان میں سے جسے چاہے منتخب کر سکتا ہے۔

فائدہ:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم» اور سجدے میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰي» کے علاوہ مذکورہ بالا دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ» نازل ہونے کے بعد آپ ہمیشہ رکوع و سجود میں یہ دعا پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري، التفسير، حديث، 9467، و مسند أحمد: 2306] نمازی ان مسنون دعاؤں میں وقتاً فوقتاً جسے چاہے پڑھ سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 231   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4293  
´رکوع اور سجدہ کی ایک دعا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدہ میں یہ پڑھتے تھے «سبحانك اللهم،‏‏‏‏ ربنا وبحمدك،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي» ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4293]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4293 کا باب: «بَابُ مَنْزِلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ:»
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمہ الباب میں فتح مکہ کے بعد کا ذکر فرما رہے ہیں، مگر تحت الباب جو امی عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت نقل فرمائی ہے اس میں فتح مکہ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، بلکہ رکوع اور سجود کی تسبیح کا ذکر ہے، لہٰذا بظاہر باب سے حدیث کی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس سے باب اور حدیث میں واضح مناسب ظاہر ہوتی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ووجه دخوله هنا ما سيأتي فى التفسير بلفظ ما صلى النبى صلى الله عليه وسلم صلاة بعد أن أنزلت عليه (اذا جاء نصر الله والفتح) [النصر: 1] الا يقول فيها .» [فتح الباري لابن حجر: 18/8]
ترجمہ الباب کے تحت اس حدیث کو شامل کرنے کی مناسبت یوں ہے کہ دوسرے طریق کتاب التفسیر میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے، (رکوع اور سجدوں میں) جب یہ آیت (فتح مکہ کے روز) نازل ہوئی، «اذا جاء نصر الله والفتح .»
لہٰذا مذکورہ حدیث کا تعلق فتح مکہ کے روز سے ہے لہٰذا مناسبت کا پہلو اسی مقام پر موجود ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيقال: كأن البخاري بيض له، فلم يتفق له وقوع ما يناسبه، ثم هذه الأحاديث الأربعة التى أوردها فى هذا الباب مناسبة لقصة الفتح كما لايخفي» [لب اللباب فى اللتراجم والأبواب 297/3]
یعنی علامہ عبدالحق صاحب کے بیان کے مطابق تحت الباب جو احادیث امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہیں ان کی مناسبت فتح مکہ کے واقعہ کے ساتھ ہے جو کہ مخفی نہیں ہے، یعنی کہیں نہ کہیں فتح کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔

محمد زکریا کاندھلوی فرماتے ہیں:
(بغیر ترجمۃ) «ذكر فيه الأحاديث المتفرقة التى فيها ذكر فتح مكة .» [الابواب والتراجم لصحيح البخاري 624/4]
(باب بغیر ترجمہ کے) تحت الباب متفرق چار احادیث کا ذکر فرمایا ہے، جس سے باب میں مناسبت فتح مکہ کے بیان سے ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 55   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 877  
´رکوع اور سجدے میں دعا کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدوں میں کثرت سے «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» کہتے تھے اور قرآن کی آیت «فسبح بحمد ربك واستغفره» (سورة النصر: ۳) کی عملی تفسیر کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 877]
877۔ اردو حاشیہ:
➊ اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ جب سورہ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ» نازل ہوئی تو اس میں یہ ارشاد ہوا کہ «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا» سو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اس سے استغفار کیجئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ دعا کو رکوع اور سجدے میں اپنا معمول بنا لیا۔
➋ اس دعا میں تسبیح، تحمید اور دعا تینوں چیزیں جمع ہیں۔ اور سابقہ حدیث میں جو آیا ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی عظمت اور سجدے میں دعا خوب کیا کرو، تو ان دونوں احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ رکوع میں تسبیح و تحمید کے ساتھ ساتھ دعا جائز ہے اور ایسے ہی سجدے میں دعا کے ساتھ تسبیح و تحمید بھی۔ ➌ اس کی دوسری توجیح یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ رکوع میں تعظیم رب اور سجدے میں کثرت دعا افضل و اولیٰ ہے اور اس مقصد کے لئے ماثور کلمات کا انتخاب ہی ارجح ہے، نوافل میں حسب مطلب بھی دعا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 877   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1048  
´رکوع کی ایک اور دعا (ذکر) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدے میں «‏سبحانك ربنا وبحمدك اللہم اغفر لي‏» اے ہمارے رب تیری ذات پاک ہے، اور تیری حمد کے ساتھ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے کثرت سے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1048]
1048۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو تعلیم دینے کے لیے یہ دعائیں پڑھتے تھے ورنہ آپ تو گناہوں سے معصوم تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1048   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث889  
´رکوع اور سجدہ میں پڑھی جانے والی دعا (تسبیح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی عملی تفسیر کرتے ہوئے اکثر اپنے رکوع میں «سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفر لي» اے اللہ! تو پاک ہے، اور سب تعریف تیرے لیے ہے، اے اللہ! تو مجھے بخش دے پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 889]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رکوع اور سجدے میں بہت سے اذکار مروی ہیں۔
ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
نمازی کو چاہیے کہ کبھی کوئی دعا پڑھ لے۔
کبھی کوئی۔

(2)
سورۃ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر: 3)
اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کیجئے۔
اور اس سے مغفرت کا سوال کیجئے۔
بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اس حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ رکوع اور سجدے میں مذکورہ بالا دعا بار بار پڑھتے رہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 889   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1088  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو استغفار بخشش طلب کرنے کا حکم دیا ہے،
کیونکہ اس سے عبدیت کا اظہار ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ہر انسان بلکہ سید ولد آدم بھی اللہ کا محتاج ہے اور بندہ سمجھتا ہے کہ عبدیت کا حق ایسا ہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوا۔
اور اس میں درحقیقت امت کو حکم دینا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھیں اور کسی وقت بھی اس کی یاد سے غافل نہ ہوں اور کبھی یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا حق بندگی ادا کر دیا ہے انسان کے کام میں ہر صورت میں کمی اور کوتاہی رہ جاتی ہے۔
اس لیے اس کو بکثرت استغفار اور تسبیح وتحمید کرنا چاہیے اور فتح مکہ کے بعد لوگوں کا بکثرت مسلمان ہونا،
یہی فتح ونصرت کی علامت تھی اور آپﷺ کی موت کے قرب کی طرف بھی اشارہ تھا اس لیے آپﷺ کو بکثرت تسبیح وتحمید اور استغفار کا حکم دیا گیا ہے،
اور آپﷺ اس حکم کی تعمیل میں یہ کام کرنے لگے جو ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ رسالت کی ادائیگی کی توفیق اور آپﷺ کے لائے ہوئے دین کی وسعت کی نعمت کا شکرانہ بھی تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1088   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.