الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
54. باب مَعْرِفَةِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ يُصَلِّيهِمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ:
54. باب: عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ان کا بیان۔
Chapter: Concerning the two rak`ah that the Prophet (saws) used to pray after `Asr
حدیث نمبر: 1937
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، ومسروق ، قالا: نشهد على عائشة ، انها قالت: " ما كان يومه الذي كان يكون عندي، إلا صلاهما رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي، تعني الركعتين بعد العصر ".وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إسحاق ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، ومَسْرُوقٍ ، قَالَا: نَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " مَا كَانَ يَوْمُهُ الَّذِي كَانَ يَكُونُ عِنْدِي، إِلَّا صَلَّاهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ ".
ابو اسحاق نے اسود اور مسروق سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ انھوں نے کہا: کوئی دن جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہوتے تھے ایسا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں۔ان کی مراد عصر کے بعد کی دو رکعتوں سے تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جس دن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے ہاں ہوتی، آپصلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں دورکعت یعنی عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 835

   صحيح البخاري593عائشة بنت عبد اللهما كان النبي يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين
   صحيح البخاري590عائشة بنت عبد اللهيصلي كثيرا من صلاته قاعدا كان النبي يصليهما ولا يصليهما في المسجد مخافة أن يثقل على أمته وكان يحب ما يخفف عنهم
   صحيح مسلم1937عائشة بنت عبد اللهما كان يومه الذي كان يكون عندي إلا صلاهما رسول الله في بيتي تعني الركعتين بعد العصر
   صحيح مسلم1935عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله ركعتين بعد العصر عندي قط
   صحيح مسلم1934عائشة بنت عبد اللهيصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما أو نسيهما فصلاهما بعد العصر أثبتهما وكان إذا صلى صلاة أثبتها
   سنن أبي داود1279عائشة بنت عبد اللهما من يوم يأتي على النبي إلا صلى بعد العصر ركعتين
   سنن النسائى الصغرى576عائشة بنت عبد اللهما دخل علي رسول الله بعد العصر إلا صلاهما
   سنن النسائى الصغرى575عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله السجدتين بعد العصر عندي قط
   سنن النسائى الصغرى577عائشة بنت عبد اللهإذا كان عندي بعد العصر صلاهما
   سنن النسائى الصغرى579عائشة بنت عبد اللهيصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما أو نسيهما فصلاهما بعد العصر إذا صلى صلاة أثبتها
   مسندالحميدي194عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد العصر عندي قط

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 575  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعت کبھی بھی نہیں چھوڑیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 575]
575 ۔ اردو حاشیہ: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ کہا گیا ہے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بعض صحابہ اور تابعین نے بھی یہ رکعتیں پڑھی ہیں، جیسے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے متعلق ملتا ہے کہ یہ بھی عصر کے بعد دورکعت پڑھا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 575   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 579  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دونوں رکعتوں کے متعلق سوال کیا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے پھر آپ کسی کام میں مشغول ہو گئے یا بھول گئے تو انہیں عصر کے بعد ادا کیا، اور آپ جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے برقرار رکھتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 579]
579 ۔ اردو حاشیہ: عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو رکعت پرھنے کی یہ توجیہ ہے کہ ایک دن آپ کی ظہر کے بعد والی سنتیں مصروفیت کی وجہ سے رہ گئیں، وہ ادا فرمائی تھیں اور بعد ازاں اپنی عادت طیبہ کے مطابق اس پر دوام فرمایا۔ یہ حدیث بھی ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ ممنوعہ اوقات میں کوئی بھی سببی نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتوں کی عصر کے بعد قضا ادا کی۔ اور مسند احمد کی روایت کے آخر میں جو یہ اضافہ منقول ہے: «افنقضیھما اذا فاتتا؟ قال: (لا)» کیا ہم بھی ان کی قضا ادا کر لیا کریں جب یہ دو رکعتیں رہ جایا کریں تو فرمایا: نہیں۔ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: [الموسوعة الحدیثیة، مسندالإمام أحمد: 44؍277]
لہٰذا رہ جانے والی نماز، عصر کے بعد ادا کی جا سکتی ہے۔ یہ صرف آپ ہی کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ الفاظ ضعیف ہیں، مزید برآں یہ کہ جب تک سورج روشن اور چمک دار ہو تو مطلقاً نوافل بھی پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 579   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1279  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1279]
1279۔ اردو حاشیہ:
یہ ہمیشگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی اور ان رکعتوں کی اصل ابتداء ظہر کی سنتیں قضا پڑھنے سے ہوئی تھی۔ دیکھیے حدیث سنن ابي داود: [1273]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1279   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1937  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزانہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہوتا ہے جب کہ دوسری احادیث میں آپﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے۔
ان احادیث کی تطبیق سنن ابی داؤد کی صحیح حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا مگر اس حال میں کہ سورج بلند ہو اس سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد جب تک سورج بلند رہے نوافل خصوصاً دو رکعتیں پڑھ سکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادا کیا کرتے تھے ہاں جب سورج بلند نہ رہے تو پھر نماز پڑھنا منع ہے صرف وہ نمازیں پڑھ سکتا ہے جن کا کوئی سبب ہو مثلاً قضاء،
تحیۃ الوضوء،
تحیۃ المسجد،
صلوۃ الکسوف،
صلوٰہ طواف وغیرہ بلا سبب نوافل جائز نہیں عصر کے بعد مطلقاً نماز سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کہیں ناواقف لوگ سورج کے نیچے چلے جانے کے بعد بھی نفلی نماز نہ پڑھتے رہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1937   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.