الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
45. باب إِعْطَاءِ مَنْ يُخَافُ عَلَى إِيمَانِهِ:
45. باب: ضعیف الایمان لوگوں کو دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2433
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا الحسن بن علي الحلواني ، وعبد بن حميد ، قالا: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، اخبرني عامر بن سعد ، عن ابيه سعد ، انه اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وانا جالس فيهم، قال: فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم رجلا لم يعطه وهو اعجبهم إلي، فقمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساررته فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان والله إني لاراه مؤمنا؟، قال: " او مسلما " فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لاراه مؤمنا؟، قال: " او مسلما " فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لاراه مؤمنا؟، قال: " او مسلما "، قال: " إني لاعطي الرجل، وغيره احب إلي منه، خشية ان يكب في النار على وجهه "، وفي حديث الحلواني تكرير القول مرتين،حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا "، قَالَ: " إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ "، وَفِي حَدِيثِ الْحُلْوَانِيِّ تَكْرِيرُ الْقَوْلِ مَرَّتَيْنِ،
حسن بن علی حلوانی اور عبدبن حمید نے کہا: ہمیں یعقوب بن ابرا ہیم بن سعد نے حدیث سنا ئی کہا میرے والد نے ہمیں صالح سے حدیث بیان کی انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی انھوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا جبکہ میں بھی ان میں بٹھا ہوا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا اس کو نہ دیا۔ وہ میرے لیے ان سب کی نسبت زیادہ پسندیدہ تھا میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور ازداری کے ساتھ آپ سے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے آپ فلا ں سے اعراض فر ما رہے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا: " یا مسلمان۔میں کچھ دیر کے لیے چپ رہا پھر جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا وہ بات مجھ پر گالب آگئی اور میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے کہ فلا ں کو نہیں دے رہے؟اللہ کی قسم! میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا مسلمان۔"اس کے بعد میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر جو میں اسکے بارے میں جا نتا تھا وہ بات مجھ پر غالب آگئی میں نے پھر عرض کی: فلاں سے آپ کے اعراض کا سبب کیا ہے اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا: "مسلما۔" (پھر) آپ نے فرمایا: "میں ایک آدمی کو دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوبہو تا ہے اس ڈر سے (دیتا ہوں) کہ وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جا ئے اور حلوانی کی حدیث میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ما ن "یا مسلمان کا) تکرا ر دوبارہے (تین بار نہیں۔)
عامر بن سعد اپنے باپ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کچھ مال دیا اور میں بھی ان میں بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو نظر انداز کر دیا۔ اس کو نہ دیا حالانکہ میرے نزدیک ان سب سے پسندیدہ تھا۔ میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو راز دارانہ انداز میں کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا معاملہ ہے آپ فلاں سے اعراض فرما رہے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اطاعت گزار) تو میں کچھ دیر خاموش رہا پھر مجھ پر اس کے بارے میں میری معلومات غالب آ گئیں تو میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا بات ہے آپ فلاں کو نہیں دے رہے؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے صحیح مومن پاتا ہوں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا فرمانبردار میں کچھ دیر چپ رہا۔ پھر میں اس کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا وہ مجھ پر غالب آ گیا اور میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو نہیں دے رہے؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا اطاعت کیش۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک ایسے آدمی کو دیتا ہوں جس کے مقابلہ میں مجھے دوسرا اس سے محبوب ہوتا ہے۔ اس ڈر سے کہ وہ اوندھے منہ آگ میں ڈال دیا جائے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 150

   صحيح البخاري27سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكبه الله في النار
   صحيح البخاري1478سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   صحيح مسلم379سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   صحيح مسلم2433سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   سنن أبي داود4683سعد بن مالكأعطي رجالا وأدع من هو أحب إلي منهم لا أعطيه شيئا مخافة أن يكبوا في النار على وجوههم
   سنن أبي داود4685سعد بن مالكأعطي الرجل العطاء وغيره أحب إلي منه مخافة أن يكب على وجهه
   سنن النسائى الصغرى4995سعد بن مالكأعطي رجالا وأدع من هو أحب إلي منهم لا أعطيه شيئا مخافة أن يكبوا في النار على وجوههم
   مسندالحميدي68سعد بن مالكقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما
   مسندالحميدي69سعد بن مالك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت`
«. . . قَالَ: يَا سَعْدُ، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

لغوی توضیح:
«رَهْطًا» گروہ۔
«خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ» اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اسے آگ میں نہ ڈال دے (اس وجہ سے کہ وہ اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے)۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 91   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´ایمان دل کا فعل ہے`
«. . . يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، فَسَكَتُّ قَلِيلًا . . .»
. . . یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

تشریح:
آیت کریمہ میں بنو اسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آ کر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں قسم کھا کر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگا سکتے ہو۔ اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔ ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کر رہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4683  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا مسلم ہے سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: یا مسلم ہے پھر آپ نے فرمایا: میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4683]
فوائد ومسائل:
1: ایمان اور اسلام اگرچہ آپس میں لازم وملزوم ہیں، مگر ایمان اعضائے باطن وظاہر کے اعمال (تصدیق عمل قلب ہے اور نماز، حج، زکوۃ وغیرہ تمام اعمال صالحہ اعضائے ظاہر کے عمل ہیں) کا نام ہے، جبکہ اسلام کا تعلق ظاہری افعال سے۔
اس لیے ہم ظاہری اعمال کی روشنی میں کسی کو صاحب اسلام تو کہہ سکتے ہیں، لیکن صاحب ایمان ہونے کا دعوی درست نہیں۔
یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اعضائے ظاہری کے ان اعمال کے ساتھ تصدیق بالقلب کی حالت ہے۔

2: اسلام قبول کرنے والے نو مسلم لوگوں کو اسلام میں راسخ اور مطئمن کرنے کے لئے ماوی تعاون دینا ضروری ہے تاکہ اسلامی معاشرے کے شرعی اعمال کی روح میں اتر جائیں۔
ایسے لوگوں کو اصطلاحًا (مولفةالقلوب) كہا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4683   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.