الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
19. بَابُ قُرْبِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّاسِ ، وَتَبَرُّكِهِمْ بِهِ وَتوَاضُعِهِ لَهُمْ
19. باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں سے برتاؤ اور آپ کی تواضع۔
Chapter: His Closeness To The People, Their Seeking Blessing From Him And His Humility Towards Them
حدیث نمبر: 6043
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا ابو النضر ، حدثنا سليمان ، عن ثابت ، عن انس ، قال: " لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، والحلاق يحلقه، واطاف به اصحابه، فما يريدون ان تقع شعرة، إلا في يد رجل ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْحَلَّاقُ يَحْلِقُهُ، وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ، إِلَّا فِي يَدِ رَجُلٍ ".
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، بال مونڈنے والا آپ کےسرکےبال اتاررہاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کے اردگرد تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کاکوئی بھی بال ان میں سے کسی ایک کے ہاتھوں کےعلاوہ کہیں اورگرے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ سرمونڈنے والا آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈ رہا تھا اور آپ کےساتھی، آپ کو گھیرے ہوئے تھے اور وہ چاہتے تھے، آپ کا بال کسی آدمی کے ہاتھ میں گرے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2325

   صحيح البخاري171أنس بن مالكلما حلق رأسه كان أبو طلحة أول من أخذ من شعره
   صحيح مسلم3154أنس بن مالكرمى جمرة العقبة انصرف إلى البدن فنحرها الحجام جالس وقال بيده عن رأسه حلق شقه الأيمن فقسمه فيمن يليه ثم قال احلق الشق الآخر
   صحيح مسلم3155أنس بن مالكلما رمى رسول الله الجمرة نحر نسكه حلق ناول الحالق شقه الأيمن فحلقه ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه ثم ناوله الشق الأيسر فقال احلق فحلقه فأعطاه أبا طلحة فقال اقسمه بين الناس
   صحيح مسلم6043أنس بن مالكالحلاق يحلقه وأطاف به أصحابه فما يريدون أن تقع شعرة إلا في يد رجل
   صحيح مسلم3152أنس بن مالكأتى منى فأتى الجمرة فرماها أتى منزله بمنى ونحر ثم قال للحلاق خذ وأشار إلى جانبه الأيمن ثم الأيسر ثم جعل يعطيه الناس
   سنن أبي داود1981أنس بن مالكها هنا أبو طلحة فدفعه إلى أبي طلحة
   مسندالحميدي1254أنس بن مالكأن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رمى الجمرة، ونحر نسكه، ناول الحالق شقه الأيمن، فحلقه، ثم ناوله رسول الله صلى الله عليه وسلم شقه الأيسر، فحلقه، ثم ناوله أبا طلحة وأمره أن يقسمه بين الناس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1981  
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ابوطلحہ یہاں ہیں؟ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1981]
1981. اردو حاشیہ:
➊ حجامت کے مسئلے میں بھی شرعی ہدایت یہی ہے کہ پہلے دائیں جانب سے بال کاٹے جائیں۔
➋ رسول اللہ ﷺ کےبال مبارک بال تھے جو صحابہ میں بطور تبرک متداول رہے۔ ان سے شفا بھی حاصل کی جاتی تھی۔ اور یہ صفت صرف اور صرف آپ ﷺ ہی کے بالوں کوحاصل رہی ہے۔ آج کل کئی مقامات پر سوئے مبارک بیان کیے جاتے ہیں چاہے کہ ان کی موثوق سند پیش کی جائے۔ مگر فی الواقع اس کا پیش کیا جانا ناممکن ہے۔
➌ حصول تبرک کوئی قیاس اور من پسند مسئلہ نہیں اس کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ مبارک اشیا مبارک مقامات اور مبارک اوقات وہی ہیں جو احادیث صحیحہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو تبرک کےمعاملے میں متنبہ اور حساس ہونا چاہے۔ یعنی جس بزرگ سمجھ لیا اس کی ہر چیز کو متبرک سمجھنا شروع کردیا یہ یکسر غلط ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے بڑھ کر امتیوں میں کون بزرگ ہو سکتاہے؟کوئی نہیں۔ لیکن صحابہ نے صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے بالوں وغیرہ کو متبرک سمجھا اور آپ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق تک کی کسی چیز کومتبرک نہیں سمجھا۔ اور فہم دین صحابہ ہی کا معتبر ہے نہ کہ آج کل کے شرک وبدعت زدہ لوگوں کا۔
➍ رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک کی اہمیت کا اندازہ جلیل القدر مخضرم تابعی امام عبیدہ بن عمرو سلمان ﷫ کے اس قول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو امام المجدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری ﷫ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: «لان تكون عندي شعرة منه احب الي من الدنيا ومافيها» (صحيح البخاري، الوضوء، حدیث170) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک میرے پاس ہو تو یہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ اکبرکبیرا-ہم ان پاکیزہ جذبات واحساسات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، نہ ان کی قدرو منزلت کااندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ یہ معیار کمال درجے کا معیار محبت ہے۔ یا اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں بھی ایسی ہی کمال درجے کی محبت عطا فرما۔آمین۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس خوبصورت قول پر جو عمدہ تعلیق لگائی ہے۔ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے(تفصیل کےلیے دیکھیئے: (سیراعلام النبلاء جلد4 ص42، 43]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1981   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6043  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت مندانہ تعلق و ربط ثابت ہوتا ہے کہ وہ آپﷺ کے بال بھی زمین پر گرنا گوارا نہیں کرتے تھے،
ان کو بھی پیار و محبت سے سنبھال کر رکھتے تھے اور اپنے لیے باعث برکت خیال کرتے تھے،
علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی ٹوپی میں آپ کا بال رکھا ہوا تھا اور جہاد میں اس ٹوپی کو پہن کر جاتے تھے اور بال کی برکت سے،
اللہ کی نصرت و مدد کے طالب ہوتے تھے۔
(عمدة القاري،
ج: 3 ص 37 طبعہ منیریہ)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6043   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.