(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن ابي الزناد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، قال: قالت عائشة:" يا ابن اختي، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يفضل بعضنا على بعض في القسم من مكثه عندنا، وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا، فيدنو من كل امراة من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو يومها فيبيت عندها، ولقد قالت سودة بنت زمعة حين اسنت وفرقت ان يفارقها رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، يومي لعائشة، فقبل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم منها، قالت: نقول في ذلك انزل الله تعالى، وفي اشباهها اراه، قال: وإن امراة خافت من بعلها نشوزا سورة النساء آية 128". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" يَا ابْنَ أُخْتِي، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفَضِّلُ بَعْضَنَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْقَسْمِ مِنْ مُكْثِهِ عِنْدَنَا، وَكَانَ قَلَّ يَوْمٌ إِلَّا وَهُوَ يَطُوفُ عَلَيْنَا جَمِيعًا، فَيَدْنُو مِنْ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْ غَيْرِ مَسِيسٍ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الَّتِي هُوَ يَوْمُهَا فَيَبِيتَ عِنْدَهَا، وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، قَالَتْ: نَقُولُ فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى، وَفِي أَشْبَاهِهَا أُرَاهُ، قَالَ: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا سورة النساء آية 128".
عروہ کہتے ہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں، اور بغیر محبت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے قریب ہوتے، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے ساتھ رات گزارتے، اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں الگ کر دیں گے تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میری باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے رہے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول فرما لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں یا اور اسی جیسی چیزوں کے سلسلے میں آیت کریمہ: «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا»(سورۃ النساء: ۱۲۸) نازل کی: ”اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدمزاجی کا خوف ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17024)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح 99 (5212)، صحیح مسلم/التفسیر 1 (3022)، مسند احمد (6/107) (حسن صحیح)»
Narrated Hisham bin Urwah: On the authority of his father that Aishah said: O my nephew, the Messenger of Allah ﷺ did not prefer one of us to the other in respect of his division of the time of his staying with us. It was very rare that he did not visit us any day (i. e. he visited all of us every day). He would come near each of his wives without having intercourse with her until he reached the one who had her day and passed his night with her. When Saudah daughter of Zam'ah became old and feared that the Messenger of Allah ﷺ would divorce her, she said: Messenger of Allah, I give to Aishah the day you visit me. The Messenger of Allah ﷺ accepted it from her. She said: We thing that Allah, the Exalted, revealed about this or similar matter the Quranic verse: "If a wife fears cruelty or desertion on her husband's part. . . . " [4: 128]
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2130
لا يفضل بعضنا على بعض في القسم من مكثه عندنا وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا فيدنو من كل امرأة من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو يومها فيبيت عندها لقد قالت سودة بنت زمعة حين أسنت وفرقت أن يفارقها رسول الله يا رسول الله يومي لعائشة
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1972
´عورت کا اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہو گئیں، تو انہوں نے اپنی باری کا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کی باری والے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1972]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) خاوند کا باری کے مطابق اپنی بیوی کے ہاں رات گزارنا عورت کا حق ہے، اسی لیے وہ اپنے حق سے دست بردار بھی ہو سکتی ہے اور اپنا حق کسی اور کو بھی دے سکتی ہے۔
(2) باری چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے تمام حقوق ساقط ہو گئے۔ مذکورہ صورت میں مرد کو چاہیے کہ دیگر حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھے۔
(3) رسول اللہ ﷺ پر باری کے مطابق بیویوں کے پاس رہنا فرض نہیں تھا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ﴾(الأحزاب: 51) ”ان میں سےجسے توچاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے۔ اور اگر تو ان میں سے کسی کو اپنے پاس بلا ئے جنھیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔“ اس کے باوجود نبی ﷺ باری کا اہتمام فرماتے تھے۔ یہ آپ ﷺ کا کمال حسن خلق ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1972
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 909
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کا اپنا دن بھی اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا دن بھی تقسیم کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 909»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب المرأة تهب يومها من زوجها لضرتها....، حديث:5212، ومسلم، الرضاع، باب جواز هبتها نوبتها لضرتها، حديث:1463.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی بیوی اپنی باری دوسری بیوی کو دے سکتی ہے۔ یہ بخشش ناقابل رجوع اور ناقابل واپسی ہوگی بشرطیکہ ایام کی تعیین نہ کی گئی ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 909