الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
34. باب فِي النِّسَاءِ يَغْزُونَ
34. باب: عورتیں جہاد میں جا سکتی ہیں۔
Chapter: Regarding Women Participating In Battle.
حدیث نمبر: 2531
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد السلام بن مطهر، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بام سليم ونسوة من الانصار ليسقين الماء ويداوين الجرحى.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ مُطَهِّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لِيَسْقِينَ الْمَاءَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کو اور انصار کی کچھ عورتوں کو جہاد میں لے جاتے تھے تاکہ وہ مجاہدین کو پانی پلائیں اور زخمیوں کا علاج کریں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجھاد 47 (1810)، سنن الترمذی/السیر 22 (1575)، (تحفة الأشراف: 261)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجھاد 65 (2880)، والمغازي 18(4064 مطولاً) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے، حالانکہ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد پر نکلنے والی عورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس لوٹ جانے کا حکم دیا، اس کے دو اسباب بیان کئے جاتے ہیں:
۱- آپ کو دشمنوں کی قوت و ضعف کا صحیح اندازہ نہ ہو سکا اور خطرہ تھا کہ مسلمان دشمن سے مغلوب ہو جائیں گے اس لئے آپ نے انہیں واپس کر دیا۔
۲- ممکن ہے یہ عورتیں نوجوان اور نئی عمر کی رہی ہوں جن سے میدان جہاد میں فتنہ کا خوف رہا ہو اس لئے آپ نے انہیں واپس کر دیا ہو، واللہ اعلم۔

Narrated Anas ibn Malik: When the Messenger of Allah ﷺ went on an expedition, he took Umm Sulaym, and he had some women of the Ansar who supplied water and tended the wounded.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2525


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1810)

   صحيح مسلم4682أنس بن مالكيغزو بأم سليم ونسوة من الأنصار معه إذا غزا فيسقين الماء ويداوين الجرحى
   جامع الترمذي1575أنس بن مالكيغزو بأم سليم ونسوة معها من الأنصار يسقين الماء ويداوين الجرحى
   سنن أبي داود2531أنس بن مالكيغزو بأم سليم ونسوة من الأنصار ليسقين الماء ويداوين الجرحى
   المعجم الصغير للطبراني569أنس بن مالكلم يكتب على النساء جهاد فقالت أداوي الجرحى وأعالج العين وأسقي الماء قال فنعم إذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1575  
´جنگ میں عورتوں کے جانے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم اور ان کے ہمراہ رہنے والی انصار کی چند عورتوں کے ساتھ جہاد میں نکلتے تھے، وہ پانی پلاتی اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1575]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جہاد عورتوں پر واجب نہیں ہے،
لیکن حدیث میں مذکور مصالح اور ضرورتوں کی خاطر ان کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے،
حج مبرور ان کے لیے سب سے افضل جہاد ہے،
جہاد میں انسان کو سفری صعوبتیں،
مشقتیں،
تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں،
مال خرچ کرنا پڑتا ہے،
حج وعمرہ میں بھی ان سب مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے،
اس لیے عورتوں کو حج وعمرہ کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے،
اسی بنا پر حج وعمرہ کو عورتوں کے لیے جہاد قراردیا گیا ہے گویا جہاد کا ثواب اسے حج وعمرہ اداکرنے کی صورت میں مل جاتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1575   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2531  
´عورتیں جہاد میں جا سکتی ہیں۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کو اور انصار کی کچھ عورتوں کو جہاد میں لے جاتے تھے تاکہ وہ مجاہدین کو پانی پلائیں اور زخمیوں کا علاج کریں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2531]
فوائد ومسائل:
جہاد میں عورتوں سے مجاہدین کی خدمت کے کام لئے جا سکتے ہیں۔
یہ امور باحجاب ہوکر ادا کیے جا سکتے ہیں۔
لہذا یہ خدمات لینے کے لئے خواتین کی تعلیم وتربیت اور مشق بھی ضروری ہے۔
شرعی تعلیمات کی ر وشنی میں اجنبی مردوں اور عورتوں کو بے حجاب کھلے اختلاط کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔
بعض لوگ عہد نبوی ﷺ کے اس قسم کے بعض اکا دکا واقعات سے یہ کلیہ اور اصول اخذ کرتے ہیں۔
کہ مردو عورت کے درمیان کسی بھی معاملے میں فرق وامتیاز نہیں ہونا چاہیے۔
بلکہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لینا چاہیے۔
لیکن ظاہر بات ہے کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ بھی یکسر غلط ہے۔
اور استدلال بھی بے بنیاد بھلا چند عمر رسیدہ خواتین کو زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور ان کو پانی پلانے جیسی معمولی خدمات کےلئے ان کو ساتھ لے جانے سے مردوزن کی مغربی مساوات اور ہر معاملے میں دوش بدوش کا اثبات کس طرح ممکن ہے؟
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2531   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.