الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
168. باب فِي صُلْحِ الْعَدُوِّ
168. باب: دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔
Chapter: Regarding Treaties With The Enemy.
حدیث نمبر: 2765
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد، ان محمد بن ثور حدثهم، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن المسور بن مخرمة، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم زمن الحديبية في بضع عشرة مائة من اصحابه حتى إذا كانوا بذي الحليفة قلد الهدي واشعره واحرم بالعمرة وساق الحديث قال: وسار النبي صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته فقال الناس: حل حل خلات القصواء مرتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما خلات وما ذلك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل، ثم قال: والذي نفسي بيده لا يسالوني اليوم خطة يعظمون بها حرمات الله إلا اعطيتهم إياها، ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل باقصى الحديبية على ثمد قليل الماء، فجاءه بديل بن ورقاء الخزاعي، ثم اتاه يعني عروة بن مسعود، فجعل يكلم النبي صلى الله عليه وسلم فكلما كلمه اخذ بلحيته والمغيرة بن شعبة قائم على النبي صلى الله عليه وسلم ومعه السيف، وعليه المغفر، فضرب يده بنعل السيف، وقال: اخر يدك عن لحيته فرفع عروة راسه فقال: من هذا؟ قالوا: المغيرة بن شعبة، فقال: اي غدر اولست اسعى في غدرتك، وكان المغيرة صحب قوما في الجاهلية فقتلهم واخذ اموالهم، ثم جاء فاسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اما الإسلام فقد قبلنا، واما المال فإنه مال غدر لا حاجة لنا فيه فذكر الحديث، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، وقص الخبر فقال سهيل، وعلى: انه لا ياتيك منا رجل وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، فلما فرغ من قضية الكتاب قال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه: قوموا فانحروا، ثم احلقوا، ثم جاء نسوة مؤمنات مهاجرات الآية، فنهاهم الله ان يردوهن وامرهم ان يردوا الصداق، ثم رجع إلى المدينة فجاءه ابو بصير رجل من قريش يعني فارسلوا في طلبه فدفعه إلى الرجلين فخرجا به حتى إذ بلغا ذا الحليفة نزلوا ياكلون من تمر لهم، فقال ابو بصير لاحد الرجلين: والله إني لارى سيفك هذا يا فلان جيدا، فاستله الآخر فقال: اجل قد جربت به فقال ابو بصير: ارني انظر إليه فامكنه منه فضربه حتى برد وفر الآخر حتى اتى المدينة فدخل المسجد يعدو، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد راى هذا ذعرا فقال: قد قتل والله صاحبي وإني لمقتول، فجاء ابو بصير فقال: قد اوفى الله ذمتك فقد رددتني إليهم، ثم نجاني الله منهم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ويل امه مسعر حرب لو كان له احد فلما سمع ذلك عرف انه سيرده إليهم، فخرج حتى اتى سيف البحر وينفلت ابو جندل، فلحق بابي بصير حتى اجتمعت منهم عصابة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ: وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا خَلَأَتْ وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا، ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ، فَجَاءَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ، ثُمَّ أَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ، وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ، وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا، وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ، وَعَلَى: أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا، ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الْآيَةَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا، فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ فَقَالَ: أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا فَقَالَ: قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ: قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ، ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سَيْفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: حل حل ۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا: اے بدعہد! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ۲؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۳؎ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے، پھر پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا: اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آ گیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کر دیا، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا: ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابوبصیر نے کہا: مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آ گیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ڈر گیا ہے، وہ بولا: قسم اللہ کی! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا، اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے اور بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تباہی ہو اس کی ماں کے لیے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے اور (ابوجندل جو صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 106 (1694)، والشروط 16 (2734)، والمغازي 35 (4148)، ن الحج 62 (2772)، (تحفة الأشراف: 11270)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/323، 327، 328) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حل حل: یہ کلمہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی رک جائے اور چلنا چھوڑ دے۔
۲؎: اصل واقعہ یہ ہے کہ بنو مالک کی شاخ ثقیف کے تیرہ لوگوں کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ مقوقس مصر کی زیارت کے لئے نکلے تھے واپسی میں مقوقس مصر نے ان لوگوں کو خوب خوب ہدایا و تحائف دئیے لیکن مغیرہ رضی اللہ عنہ کو کم نوازا جس کی وجہ سے انہیں غیرت آ گئی، راستے میں ان لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور شراب اس قدر پی کہ سب مدہوش ہو گئے، مغیرہ رضی اللہ عنہ کو اچھا موقع ہاتھ آیا انہوں نے سب کو قتل کر دیا اور سب کے سامان لے لئے، بعد میں مقتولین کے ورثاء نے عروہ بن مسعود ثقفی سے جھگڑا کیا کیونکہ مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کے بھتیجے تھے بمشکل عروہ نے ان سب کو دیت پر راضی کرکے فیصلہ کرایا، اسی احسان کی طرف عروہ نے اشارہ کیا ہے۔
۳؎: کیونکہ یہ مکر اور فریب سے حاصل ہوا ہے۔

Al Miswar bin Makhramah said: The Messenger of Allah ﷺ came out in the year of al-Hudaibbiyyah with over ten hundreds of Companions and when he came to Dhu al Hulaifah. He garlanded and marked the sacrificial animals, and entered the sacred state of Umrah. He then went on with the tradition. The Prophet moved on and when he came to the mountain, pass by which one descends (to Makkah) to them, his riding-beast knelt down, and the people said twice: Go on, go on, al-Qaswa has become jaded. The Prophet ﷺ said: She has not become jaded and that is not a characteristic of hers, but He Who restrained the elephant has restrained her. He then said: By Him in Whose hand my soul is, they will not ask any me good thing by which they honor which God has made sacred without my giving them it. He then urged her and she leaped up and he turned aside from them, and stopped at the farthest side of al-Hudaibiyyah at a pool with little water. Meanwhile Budail bin Warqa al-Khuza’I came, and Urwah bin Masud joined him. He began to speak to the Prophet ﷺ. Whenever he spoke to the Prophet ﷺ, he caught his beard. Al Mughriah bin Shubah was standing beside the Prophet ﷺ. He had a sword with him, wearing a helmet. He (Al Mughriah) struck his (Urwah’s) hand with the lower end of his sheath, and said: Keep away your hand from his beard. Urwah then raised his hand and asked: Who is this? They replied: Al-Mughirah bin Shubah. He said: O treacherous one! Did I not use my offices in your treachery? In pre-Islamic days Al-Mughirah bin Shubah accompanied some people and murdered them, and took their property. He then came (to the Prophet) and embraced Islam. The Prophet ﷺ said: As for Islam we accepted it, but as to the property, as it has been taken by treachery, we have no need of it. He went on with the tradition the Prophet ﷺ said: Write down: This is what Muhammad, the Messenger of Allah, has decided. He then narrated the tradition. Suhail then said: And that a man will not come to you from us, even if he follows your religion, without you sending him back to us. When he finished drawing up the document, the Prophet ﷺ said to his Companions: Get up and sacrifice and then shave. Thereafter some believing women who were immigrants came. (Allah sent down: O yea who believe, when believing women come to you as emigrants). Allah most high forbade them to send them back, but ordered them to restore the dower. He then returned to Madina. Abu Basir a man from the Quraish (who was a Muslim), came to him. And they sent (two men) to look for him; so he handed him over to the two men. They took him away, and when they reached Dhu Al Hulaifah and alighted to eat some dates which they had, Abu Basir said to one of the men: I swear by Allah so-and-so, that I think this sword of yours is a fine one; the other drew the sword and said: Yes I have tried it. Abu Basir said: Let me look at it. He let him have it and he struck him till he died, whereupon the other fled and came to Madina, and running entered the mosque. The Prophet ﷺ said: This man has seen something frightful. He said: I swear by Allah that my Companion has been killed, and im as good as dead. Abu Basir then arrived and said: Allah has fulfilled your covenant. You returned me to them, but Allah saved me from them. The Prophet ﷺ said: Woe to his mother, stirrer up of war! Would that he had someone (i. e. some kinsfolk). When he heard that he knew that he would send him back to them, so he went out and came to the seashore. Abu Jandal escaped and joined Abu Basir till a band of them collected.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2759


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2731، 2732)

   صحيح البخاري4179مسور بن مخرمةإن قريشا جمعوا لك جموعا وقد جمعوا لك الأحابيش وهم مقاتلوك وصادوك عن البيت ومانعوك فقال أشيروا أيها الناس علي أترون أن أميل إلى عيالهم وذراري هؤلاء الذين يريدون أن يصدونا عن البيت فإن يأتونا كان الله قد قطع عينا من المشركين وإلا تركناهم محروبين قال أبو بكر
   صحيح البخاري4181مسور بن مخرمةلما كاتب رسول الله سهيل بن عمرو يوم الحديبية على قضية المدة وكان فيما اشترط سهيل بن عمرو أنه قال لا يأتيك منا أحد وإن كان على دينك إلا رددته إلينا وخليت بيننا وبينه وأبى سهيل أن يقاضي رسول الله إلا على ذلك فكره
   سنن أبي داود2765مسور بن مخرمةما خلأت وما ذلك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل ثم قال والذي نفسي بيده لا يسألوني اليوم خطة يعظمون بها حرمات الله إلا أعطيتهم إياها ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل بأقصى الحديبية على ثمد قليل الماء فجاءه بديل بن ورقاء الخزاعي ثم أتاه يعني عروة بن مسعود
   سنن أبي داود4655مسور بن مخرمةجعل يكلم النبي كلما كلمه أخذ بلحيته والمغيرة بن شعبة قائم على رأس النبي ومعه السيف وعليه المغفر فضرب يده بنعل السيف وقال أخر يدك عن لحيته فرفع عروة رأسه فقال من هذا قالوا المغيرة بن شعبة
   بلوغ المرام1128مسور بن مخرمة هذا ما صالح عليه محمد بن عبد الله ،‏‏‏‏ سهيل بن عمرو على وضع الحرب عشر سنين يأمن فيها الناس ويكف بعضهم عن بعض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1128  
´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال نکلے۔ راوی نے لمبی حدیث بیان کی ہے اور اس میں یہ مذکور ہے کہ یہ وہ (دستاویز) ہے جس پر محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سہیل بن عمرو سے صلح کی ہے کہ دس سال جنگ بند رہے گی۔ اس عرصہ میں لوگ امن سے رہیں گے اور ان میں سے ہر ایک (جنگ سے) اپنا ہاتھ روکے رکھے گا۔ ابوداؤد اور اس کی اصل بخاری میں ہے اور مسلم نے اس حدیث کا کچھ حصہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے کہ تم میں سے جو کوئی ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہیں کریں گے اور ہمارا کوئی آدمی تمہارے پاس آ جائے تو تم اسے ہمارے پاس واپس لوٹا دو گے۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم یہ لکھ لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں! جو شخص ہم میں سے ان کے پاس چلا جائے گا اسے اللہ تعالیٰ نے دور کر دیا اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ضرور کشائش اور کوئی راستہ نکال دے گا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1128»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في صلح العدو، حديث:2765، وأصله عند البخاري، الشروط، حديث /2731، وحديث أنس: أخرجه مسلم، الجهاد، حديث:1784.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«مروان رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ اس سے مروان بن حکم اموی مراد ہیں۔
ابوعبدالملک کنیت تھی۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر مقرر ہوئے۔
یزید کی وفات اور اس کے بیٹے معاویہ کی خلافت سے علیحدگی کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے حریف بن کر مصر وشام پر قابض ہوگئے تھے۔
ان کی وفات دمشق میں ۶۵ہجری میں ہوئی۔
«حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏سہیل بن عمرو کا شمار قریش کے سرکردہ شرفاء و رؤسا میں ہوتا تھا۔
ان کے عقلاء اور خطباء میں سے ایک تھے۔
بدر کے روز قید ہوئے۔
اس وقت کافر تھے۔
فتح مکہ کے روز اسلام قبول کیا۔
فتنۂارتداد کے موقع پر قریش ان کی وجہ سے اسلام پر ثابت قدم رہے۔
۴ا ہجری میں یرموک کے موقع پر شہید ہوئے۔
یا ان کی وفات مرج صفر میں یا طاعون عمواس میں ۱۸ ہجری میں ہوئی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1128   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2765  
´دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: حل حل ۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2765]
فوائد ومسائل:
کفار سے ایسا پیمان کہ ایک مدت تک کے لئے ہم آپس میں قتال نہیں کریں گے۔
جائز ہے مگر چاہیے کہ اس کی ابتداء اور مطالبہ کفار کی طرف سے ہو۔
مسلمانوں کا ابتدائی طور پر انہیں یہ پیش کش کرنا کسی طرح پسندیدہ نہیں۔
کیونکہ اس میں کمزوری اور ہتک کا اظہار ہے۔
اور لازمی ہے کہ صلح کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنی تیاری سے غافل نہ رہیں۔
ممکن ہے کہ دشمن دھوکہ دے جائے۔
سورہ انفال میں اس امر کی مشروعیت کا بیان مذکورہ ہے۔
(وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔
۔
۔
وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّـهُ ۚ)
(الأنفال:61۔
62)
اگر وہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں۔
تو آپ بھی اس کےلئے جھک جایئں اور اللہ پر توکل کریں۔
بلا شبہ وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
اور اگر انہوں نے آپ کو دھوکا دینے کا ارادہ کیا ہو تو پھر اللہ آپ کےلئے کافی ہے۔
۔
۔
درج زیل حدیث میں صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے جو یہاں مختصر ہے چاہیے کہ دیگر کتب حدیث وسیرت میں تفصیل سے اس کا مطالعہ کیا جائے۔
انتہائی جامع حدیث ہے۔
اور بے شمار مسائل کی حامل ہے۔
فوائد ومسائل۔
یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔
ہر ذمہ دار شخص کو اس پر خوب غور کرنا چاہیے۔


مسلمان حکمران کی کافروں کے ساتھ صلح کے وقت سب سے پہلی ترجیح اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور عظمت ہونی چاہیے۔


مسنون یہ ہے کہ بیت اللہ کو روانہ کی جانے والی قربانی کے گلے می جوتوں کا ہار ڈال دیاجائے اور اونٹ یا اونٹنی ہو تو اس کے کوہان کی دایئں جانب ہلکا سا چیر لگا کر خون اس پر چپڑ دیا جائے۔
اس چیر لگانے کو اشعار کہتے ہیں۔


قصواء رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کا نام ولقب تھا۔
لفظی معنی ہیں۔
کان کٹی

ابرہہ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
جس میں وہ ایک عظیم لائو لشکر اور ہاتھی لے کر آیا تھا۔
کہ بیت اللہ کو منہدم کردے۔
مگر اللہ کی تدبیر سے پرندوں کی سنگریزوں کی بارش سے سارا لشکر ہلاک ہو گیا۔
اور کعبہ اور مکہ دونوں محفوظ ومامون رہے۔


یعنی اللہ کے حرم میں قتل وغارت نہ ہو۔
اور دونوں قوموں کے مابین صلح ہوجائے۔


بدیل بن ورقہ نے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بطور خیر خواہی کے یہ خبر دی کہ کعب بن لوی اور عامر بن لوی اپنی تمام تر قوت کے ساتھ حدیبیہ کے پار مکہ کی جانب جنگ کے لئے تیار ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے بتایا کہ در اصل ہم لڑائی کے لئے آئے ہی نہیں ہیں۔
لیکن اگر مجبور کیا گیا۔
تو اس وقت تک لڑوں گا۔
جب تک اللہ اپنے اس دین اسلام کو غالب نہ فرما دے۔
یا میری گردن کٹ جائے اور جان چلی جائے۔


ا ہل عرب میں یہ رواج تھا کہ دو برابر کے ساتھی آپس میں گفتگو کے دوران میں دوسرے کو نرمی اور ملائمت پر آمادہ کرنے کےلئے یہ انداز اختیار کیا کرتے تھے۔
مگر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واضح کردیا کہ تم ان کے برابر کے نہیں ہو۔
یہ تو افضل البشر ہیں۔


خطرے اور اظہار وجاہت کے موقع پر حفاظت وغیرہ کے لئے محافظوں کو کھڑا کرنا جائز اور مطلوب ہے۔
مگر جہاں کوئی معقول سبب نہ ہو وہاں لوگوں کو کھڑا کرنا تکبر میں شمار ہوتا ہے۔
اور ایک ناجائز عمل ہے۔


دھوکے فریب سے حاصل کردہ مال کسی صورت جائز نہیں۔
مگر دارالحرب اور قتال کی صورت میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کہلاتا ہے۔

10۔
سہیل نے معاہدہ لکھتے وقت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پراعتراض کیا۔
کہ ہم الرحمٰن کو نہیں جانتے اور نبی کریم ﷺ کے متعلق محمد رسول اللہﷺ لکھنا بھی قبول نہیں کیا۔
مگر آپ نے شرعی مصلحت کے تحت اس کی یہ باتیں باوجود غلط ہونے کے گوارا کرلیں۔
اور باسمك اللهم اور محمد بن عبد اللہ لکھا گیا۔
اس نرم روی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد ازاں یہی لوگ اسلام لے آئے۔
اور اسلام کے فدا کار سپاہی ثابت ہوئے۔

11۔
ساحل سمند ر پر جمع ہونے والی یہ جماعت قریش کے قافلوں پرحملے کرتی۔
اور ان کے تجارتی قافلوں کےلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوئی بالآخر نے قریش نے درخواست کی کہ ہم اپنی اس شرط سے دستبردار ہوتے ہیں۔
کہ اہل مکہ میں سے مسلمان ہونے والے کو واپس کیا جائے۔
اس طرح ان لوگوں کو مدینے بلا لیا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2765   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.