الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں
Battles (Kitab Al-Malahim)
16. باب فِي خَبَرِ ابْنِ صَائِدٍ
16. باب: ابن صیاد کا بیان۔
Chapter: Reports regarding Ibn As-Sa’id.
حدیث نمبر: 4329
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو عاصم خشيش بن اصرم، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم: مر بابن صائد في نفر من اصحابه فيهم عمر بن الخطاب وهو يلعب مع الغلمان عند اطم بني مغالة وهو غلام فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده ثم قال:" اتشهد اني رسول الله؟ قال: فنظر إليه ابن صياد، فقال: اشهد انك رسول الاميين، ثم قال ابن صياد للنبي صلى الله عليه وسلم: اتشهد اني رسول الله، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: آمنت بالله ورسله، ثم قال له النبي صلى الله عليه وسلم: ما ياتيك؟ قال: ياتيني صادق وكاذب، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: خلط عليك الامر، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني قد خبات لك خبيئة وخبا له يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10، قال ابن صياد: هو الدخ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اخسا فلن تعدو قدرك، فقال عمر: يا رسول الله ائذن لي فاضرب عنقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن يكن فلن تسلط عليه يعني الدجال وإلا يكن هو فلا خير في قتله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَر، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَرَّ بِابْنِ صَائِدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَأْتِيكَ؟ قَالَ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُلِطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي قَدْ خَبَّأْتُ لَكَ خَبِيئَةً وَخَبَّأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ يَكُنْ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ يَعْنِي الدَّجَّالَ وَإِلَّا يَكُنْ هُوَ فَلَا خَيْرَ فِي قَتْلِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو آپ نے اس سے فرمایا: میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تیرے پاس کیا چیز آتی ہے؟ وہ بولا: سچی اور جھوٹی باتیں آتی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو معاملہ تیرے اوپر مشتبہ ہو گیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیرے لیے ایک بات چھپائی ہے اور آپ نے اپنے دل میں «يوم تأتي السماء بدخان مبين» (سورۃ الدخان: ۱۰) والی آیت چھپا لی، تو ابن صیاد نے کہا: وہ چھپی ہوئی چیز «دُخ» ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہٹ جا، تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس کی گردن مار دوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہ ہو سکو گے، اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کے قتل میں کوئی بھلائی نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 79 (1354)، الجہاد 178 (3055)، الأدب 97 (6618)، صحیح مسلم/الفتن 19 (2930)، سنن الترمذی/الفتن 63 (2249)، (تحفة الأشراف: 6932)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/148، 149) وأعادہ المؤلف فی السنة (4757) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ibn Umar said: The prophet ﷺ passed by Ibn Saeed along with some of his companions. Umar bin al-Kattab was among them. He was playing with boys near the fortress of Banu Maghalah. He was near the age of puberty (i. e. a boy). Before he was aware, the Messenger of Allah ﷺ gave him a pat on the back and said: Do you testify that you are the Messenger of Allah Ibn Sayyad then looked at him and said: I testify that you are the Messenger of Gentiles. Ibn Sayyad then said the prophet ﷺ then asked him: What comes to you ? He replied: One who speaks the truth and one who lies come to me. The prophet (may peace upon him) said: You are confused. The Messenger of Allah (may peace upon him) said to him: I have concealed something (in my hand) and he concealed the verse “the day when the sky will bring forth smoke (dukhan) clearly visible Ibn Sayyad said: It is smoke (dukhan). The Messenger of Allah ﷺ said: Away with you, You cannot get farther than your rank. Umar said: “Messenger of Allah, permit me to cut off his head. The Messenger of Allah ﷺ said: If he is the one (the Dajjal), you will not be given power over him, and if he is not, you will not do well in killing him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 38 , Number 4315


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3055) صحيح مسلم (2930)

   صحيح البخاري6618عبد الله بن عمرخبأت لك خبيئا قال الدخ قال اخسأ فلن تعدو قدرك قال عمر ائذن لي فأضرب عنقه قال دعه إن يكن هو فلا تطيقه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله
   صحيح البخاري3055عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله قال له النبي آمنت بالله ورسله قال النبي ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب قال النبي صل
   صحيح البخاري3056عبد الله بن عمرانطلق النبي وأبي بن كعب يأتيان النخل الذي فيه ابن صياد حتى إذا دخل النخل طفق النبي يتقي بجذوع النخل وهو يختل ابن صياد أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها رمزة فرأت أم ابن صياد
   صحيح البخاري6173عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد أتشهد أني رسول الله فرضه النبي ثم قال آمنت بالله ورسله ثم قال لابن صياد ماذا ترى قال يأتيني صادق وكاذب قال رسول الله خلط عليك الأمر قال رسول الل
   صحيح البخاري2638عبد الله بن عمرانطلق رسول الله وأبي بن كعب الأنصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد حتى إذا دخل رسول الله طفق رسول الله يتقي بجذوع النخل وهو يختل أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قط
   صحيح البخاري1354عبد الله بن عمرتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فرفضه وقال آمنت بالله وبرسله فقال له ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال النبي خلط عليك الأمر ثم قال له
   صحيح مسلم7354عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين فقال ابن صياد لرسول الله أتشهد أني رسول الله فرفضه رسول الله وقال آمنت بالله وبرسله ثم قال له رسول الله ماذا ترى قال ابن صياد يأتيني
   جامع الترمذي2249عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله فنظر إليه ابن صياد قال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أنت أني رسول الله فقال النبي آمنت بالله وبرسله ثم قال النبي ما يأتيك قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب فقال
   سنن أبي داود4329عبد الله بن عمرأتشهد أني رسول الله قال فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين ثم قال ابن صياد للنبي أتشهد أني رسول الله فقال له النبي آمنت بالله ورسله ثم قال له النبي ما يأتيك قال يأتيني صادق وكاذب فقال له
   بلوغ المرام1126عبد الله بن عمر الإسلام يعلو ولا يعلى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1126  
´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا عائذ بن عمرو المذنی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ (سنن دارقطنی) «بلوغ المرام/حدیث: 1126»
تخریج:
«أخرجه الدار قطني: 3 /252 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد عند الطحاوي في معاني الآثار:2 /150 وغيره، وعلقه البخاري، الجنائز، قبل حديث:1354.»
تشریح:
1. اس حدیث میں خبر و اطلاع بھی ہے اور پیش گوئی بھی کہ اسلام ہمیشہ غالب بن کر رہنے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب بن کر رہنے کے لیے نہیں‘ لہٰذا اہل اسلام کو چاہیے کہ نظریاتی اور عملی طور پر اسے غالب رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اسلام کی صحیح تبلیغ و اشاعت کریں۔
اور اس کے مطابق پہلے خود اپنی عملی زندگی ڈھالیں تاکہ ان کے عمل و کردار اور اخلاق و اطوار سے متاثر ہو کر غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوں۔
2.اس حدیث کو ہدنہ (صلح) کی تمہید اور ابتدا کے طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باہمی مصالحت میں اگر بفرض محال کوئی شرط بظاہر اسلام کے ماننے والے کے مفاد کے خلاف بھی معلوم ہو تو پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
3. اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔
وہ اسے ہمیشہ سربلند و بالاتر اور اعلیٰ و غالب رکھے گا۔
اس کے ماننے والے اگر اس کے مطابق عمل کریں گے تو سرخرو ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اسلام اور اہل اسلام کی نصرت و مدد فرمائے گا۔
4. اسلام کا دلائل و براہین کے اعتبار سے سب پر غالب رہنا تو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابو ہبیرہ ان کی کنیت تھی۔
بصرہ میں فروکش ہوگئے تھے۔
نیک ترین صحابہ میں سے تھے۔
بیعت رضوان میں حاضر تھے۔
یزید بن معاویہ کے عہد میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1126   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2249  
´ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2249]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔

2؎:
بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبردی گئی ہے،
لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے،
معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے،
ابن صیاد تو ان دجاجلہ،
کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبردی تھی،
اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے،
رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتی کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپﷺ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2249   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4329  
´ابن صیاد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4329]
فوائد ومسائل:
علامہ ابنِ اثیر النہایہ میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک یہودی تھا جو ان کے ساتھ ملا جلا رہتا تھا۔
اس کا نام صَا فُ کہا گیا ہے۔
اس کے پاس کہانت اور جادو کا علم تھا اور وہ اپنے وقت میں اللہ کے نیک بندوں کے لیئے ایک امتحان تھا تا کہ جو ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے دلیل ک ساتھ زندہ رہے۔
اکثر کہتے ہیں کہ یہ مدینہ میں مرا اور یہ بھی کہا گیا کہ واقعہ حرا کے مو قعے پر اسے گم پایا گیا اور پھر ملا نہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4329   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.