الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
158. بَابُ : ذِكْرِ مَا يَكْفِي الْجُنُبَ مِنْ إِفَاضَةِ الْمَاءِ عَلَى رَأْسِهِ
158. باب: سر پر کتنا پانی بہانا جنبی کے لیے کافی ہو گا؟
Chapter: Mention Of How Much Water Is Sufficient For The Junub Person To Pour Over His Head
حدیث نمبر: 251
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن سليمان بن صرد، عن جبير بن مطعم، قال: تماروا في الغسل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال بعض القوم: إني لاغسل كذا وكذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما انا فافيض على راسي ثلاث اكف".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قال: تَمَارَوْا فِي الْغُسْلِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: إِنِّي لَأَغْسِلُ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا أَنَا فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثَ أَكُفٍّ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غسل کے سلسلے میں جھگڑ پڑے، قوم کا ایک شخص کہنے لگا: میں اس اس طرح غسل کرتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا میں تو میں اپنے سر پر تین لپ پانی بہاتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الغسل 4 (254) مختصرًا، صحیح مسلم/الحیض 11 (327)، سنن ابی داود/الطھارة 98 (239)، سنن ابن ماجہ/فیہ 95 (575)، (تحفة الأشراف: 3186)، صحیح مسلم/81، 84، 85، ویأتي عندالمؤلف برقم: 425 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري254جبير بن مطعمأما أنا فأفيض على رأسي ثلاثا وأشار بيديه كلتيهما
   صحيح مسلم741جبير بن مطعمأفرغ على رأسي ثلاثا
   صحيح مسلم740جبير بن مطعمأفيض على رأسي ثلاث أكف
   سنن أبي داود239جبير بن مطعمأما أنا فأفيض على رأسي ثلاثا وأشار بيديه كلتيهما
   سنن النسائى الصغرى425جبير بن مطعمأما أنا فأفرغ على رأسي ثلاثا
   سنن النسائى الصغرى251جبير بن مطعمأما أنا فأفيض على رأسي ثلاث أكف
   سنن ابن ماجه575جبير بن مطعمأما أنا فأفيض على رأسي ثلاث أكف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 254  
´غسل بدن پر تین مرتبہ پانی بہانا`
«. . . حَدَّثَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا أَنَا فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثًا، وَأَشَارَ بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا . . .»
. . . ہم سے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا: 254]

تخريج الحديث:
[187۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 4 باب من افاض على راسه ثلاثًا 254، مسلم 327، ابن ماجه 570]
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ دوران غسل بدن پر تین مرتبہ پانی بہانا مستحب ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ [شرح مسلم للنووي 246/2]
تاہم واجب صرف ایک مرتبہ پانی بہانا ہی ہے کہ پیچھے حدیث گزری ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 187   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 425  
´جنبی کے لیے سر پر کتنا پانی بہانا کافی ہے؟`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غسل (جنابت) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا میں تو میں اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 425]
425۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں عبداللہ بن سعید اور سوید بن نصر۔ امام صاحب صراحت فرما رہے ہیں کہ مذکورہ الفاظ حدیث استاد سوید کے بیان کردہ ہیں۔
➋سر کو اہتمام سے دھونا چاہیے، اس لیے اس میں تین دفعہ دھونے کی مشروعیت ہے۔ اس تعداد سے سر کی جلد اچھی طرح تر ہو جاتی ہے۔ اس سے زائد دفعہ دھونا ممنوع ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کا باب سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 425   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 251  
´سر پر کتنا پانی بہانا جنبی کے لیے کافی ہو گا؟`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غسل کے سلسلے میں جھگڑ پڑے، قوم کا ایک شخص کہنے لگا: میں اس اس طرح غسل کرتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا میں تو میں اپنے سر پر تین لپ پانی بہاتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 251]
251۔ اردو حاشیہ: اگر مسنون طریقے کے مطابق پہلے وضو کیا جائے، پھر بالوں کا خلال کر کے جڑیں تر کر لی جائیں تو سر پر تین چلو پانی بہانا ہی کافی ہو گا۔ کوئی جگہ اور کوئی بال خشک نہ رہے گا، نیز پانی کی بچت بھی ہو گی۔ ان روایات میں غسل جنابت سے پہلے نماز والا وضو کرنے کا بیان تو ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔ گویا مسح کی بجائے سر پر تین چلو پانی بہانا ضروری ہے، اسی طرح پاؤں بھی نہیں دھونے، بلکہ پاؤں غسل کرنے کے بعد آخر میں دھوئے جائیں گے، البتہ یہ ضروری ہے کہ دوران غسل میں اگلی اور پچھلی شرم گاہ کو ہاتھ نہ لگے ورنہ وضو برقرار نہیں رہے گا، اسی لیے روایات میں صراحت ہے کہ وضو کرنے سے پہلے شرم گاہ اچھی طرح دھو لے۔ اس اعتبار سے غسل جنابت میں یہ ضروری ہے کہ پہلے شرم گاہ صاف کرے، پھر ہاتھ دھو کر وضو کرے، اس میں سر میں مسح کرنے کی بجائے تین لپ پانی ڈالے، پھر پورا غسل کر لے اور آخر میں دونوں پاؤں دھو لے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 251   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث575  
´غسل جنابت میں سر کیسے دھلے؟`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غسل جنابت کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اپنے سر پہ تین چلو پانی ڈالتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 575]
اردو حاشہ:
(1)
اگر سر میں صحیح طریقے سے پانی ڈالا جائے تو تین لپوں میں پورا سر اچھی طرح تر ہو سکتا ہے۔
ویسے بھی ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرنا فضول خرچی ہے جس سے اللہ کے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

(2)
بحث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس موضوع پر بات چیت شروع ہوگئی ہے، ہر کسی نے بتایا کہ وہ غسل کس طرح کرتا ہے۔
تعلیم وتربیت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی مسئلے میں شاگردوں کی رائے فرداً فرداً دریافت کی جائے۔
اس کے بعد استاد صحیح بات بتائے تاکہ ہر طالب علم اپنی غلطی معلوم کرکے اسے اچھی طرح یاد رکھ سکے۔

(4)
اس حدیث میں غسل جنابت کے مسائل میں سے صرف ایک مسئلہ بیان کیا گیا ہے، ممکن ہے رسول اللہ نے پورا طریقہ بیان کیا ہو، راوی نے صرف اہم ذکر کردیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے باقی مسائل ذکر نہ کیے ہوں کیونکہ صحابہ نے وہ باتیں صحیح بتائی ہوں گیجو بات ان سے رہ گئی نبیﷺ نے اس کا ذکر فرما دیا۔
 واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 575   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.