الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book of Zakah
89. بَابُ : مَنِ الْمُلْحِفُ
89. باب: چمٹ کر مانگنے والا کون ہے؟
Chapter: Who Is The One Who Is Demanding When Asking?
حدیث نمبر: 2596
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابن ابي الرجال، عن عمارة بن غزية، عن عبد الرحمن بن ابي سعيد الخدري، عن ابيه، قال: سرحتني امي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتيته، وقعدت فاستقبلني وقال:" من استغنى اغناه الله عز وجل، ومن استعف اعفه الله عز وجل، ومن استكفى كفاه الله عز وجل، ومن سال وله قيمة اوقية فقد الحف" , فقلت: ناقتي الياقوتة خير من اوقية، فرجعت ولم اساله.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَرَّحَتْنِي أُمِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ، وَقَعَدْتُ فَاسْتَقْبَلَنِي وَقَالَ:" مَنِ اسْتَغْنَى أَغْنَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنِ اسْتَكْفَى كَفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِيمَةُ أُوقِيَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ" , فَقُلْتُ: نَاقَتِي الْيَاقُوتَةُ خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میری ماں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (کچھ مانگنے کے لیے) بھیجا، میں آیا، اور بیٹھ گیا، آپ نے میری طرف منہ کیا، اور فرمایا: جو بے نیازی چاہے گا اللہ عزوجل اسے بے نیاز کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا، اور جو تھوڑے پر قناعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کافی ہو گا۔ اور جو شخص مانگے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (یعنی چالیس درہم) کے برابر مال ہو تو گویا اس نے چمٹ کر مانگا، تو میں نے (اپنے دل میں) کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے، چنانچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے واپس چلا آیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة23 (1628)، (تحفة الأشراف: 4121)، مسند احمد (3/9) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح البخاري6470سعد بن مالكأنفق بيديه ما يكن عندي من خير لا أدخره عنكم وإنه من يستعف يعفه الله ومن يتصبر يصبره الله ومن يستغن يغنه الله ولن تعطوا عطاء خيرا وأوسع من الصبر
   صحيح البخاري1469سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء خيرا وأوسع من الصبر
   صحيح مسلم2424سعد بن مالكما يكن عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يصبر يصبره الله وما أعطي أحد من عطاء خير وأوسع من الصبر
   جامع الترمذي2024سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستغن يغنه الله ومن يستعفف يعفه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد شيئا هو خير وأوسع من الصبر
   سنن أبي داود1644سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطى الله أحدا من عطاء أوسع من الصبر
   سنن أبي داود1628سعد بن مالكمن سأل وله قيمة أوقية فقد ألحف فقلت ناقتي الياقوتة هي خير من أوقية قال هشام خير من أربعين درهما فرجعت فلم أسأله شيئا
   سنن النسائى الصغرى2596سعد بن مالكمن استغنى أغناه الله ومن استعف أعفه الله ومن استكفى كفاه الله ومن سأل وله قيمة أوقية فقد ألحف
   سنن النسائى الصغرى2589سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعفف يعفه الله ومن يصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء هو خير وأوسع من الصبر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم615سعد بن مالكما يكون عندي من خير فلن ادخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 615  
´مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے`
«. . . عن ابى سعيد الخدري ان ناسا من الانصار سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاهم ثم سالوه فاعطاهم، ثلاثا، حتى نفد ما عنده، ثم قال: ما يكون عندي من خير فلن ادخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره الله. وما اعطي احد عطاء هو خير واوسع من الصبر . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ (مال) مانگا تو آپ نے انہیں (تین دفعہ) عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو بھی خیر ہو گی (بہترین مال ہو گا) تو میں اسے تم سے (روک کر) ہرگز ذخیرہ نہیں کروں گا (بلکہ تمہیں دے دوں گا) اور جو شخص مانگنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو بےنیازی اختیار کرے گا تو اللہ اسے بےنیاز کر دے گا جو شخص صبر کرے گا تو اللہ اسے صابر و شاکر بنا دے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی چیز (لوگوں کو) عطا نہیں کی گئی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 615]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1469، ومسلم 1053، من حديث مالك به]

تفقه
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سخی اور اپنی امت کے خیر خواہ تھے۔
➋ مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے۔
➌ جس شخص کے پاس (ضرورت سے زائد) مال نہ ہو تو وہ مانگنے والے کے سامنے اپنا عذر بیان کر سکتا ہے۔
➍ بہترین اخلاق یہی ہے کہ ضرورت مند بھی کچھ نہ مانگے بلکہ صبر اور توکل سے ہمیشہ کام لے۔ دوسرے لوگوں کے ہاتھوں کی طرف لالچ کی وجہ سے دیکھتے رہنا اور بغیر شرعی عذر کے مانگنا اچھی روش نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [ح: 174]
➎ علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب رحمہ اللہ نے فرمایا: «ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدًا بعفو إلا عزًا وما تواضع عبد إلا رفعه الله» صدقہ مال سے کوئی کمی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے بندے کی عزت بہت زیادہ کرتا ہے اور جو بندہ تواضع (عاجزی وانکساری) کرتا ہے تو اللہ اس کا مرتبہ بلند کردیتا ہے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 2/1000 ح1949ب وسنده صحيح]
یہ روایت (اثر) صحیح مسلم میں «العلاء بن عبد الرحمن عن ابيه عن ابي هريرة» کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی موجود ہے۔ [صحیح مسلم 2588 وترقيم دارالسلام: 6592]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 78   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2596  
´چمٹ کر مانگنے والا کون ہے؟`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میری ماں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (کچھ مانگنے کے لیے) بھیجا، میں آیا، اور بیٹھ گیا، آپ نے میری طرف منہ کیا، اور فرمایا: جو بے نیازی چاہے گا اللہ عزوجل اسے بے نیاز کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا، اور جو تھوڑے پر قناعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کافی ہو گا۔ اور جو شخص مانگے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (یعنی چالیس درہم) کے برابر مال ہو تو گویا اس نے چمٹ کر مانگا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2596]
اردو حاشہ:
(1) بھیجا کوئی چیز مانگنے کے لیے جیسا کہ حدیث کے آخر سے معلوم ہوتا ہے۔
(2) مستغنی ظاہر کرے۔ یعنی باوجود فقیر ہونے کے اپنے فقر کا اظہار نہ کرے۔
(3) کفایت کا طالب ہو۔ یعنی وہ حریص نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق طلب کرتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ سے کفایت کی دعا کرے۔
(4) یاقوتہ ان کی اونٹنی کا نام تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2596   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2024  
´صبر کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ چند انصاریوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا: جو مال بھی میرے پاس ہو گا میں اس کو تم سے چھپا کر ہرگز جمع نہیں رکھوں گا، لیکن جو استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا ۱؎، جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا، اور جو صبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا کرے گا، کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2024]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2024   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1628  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سوال کرے حالانکہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو تو اس نے الحاف کیا، میں نے (اپنے جی میں) کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔ (ہشام کی روایت میں ہے: چالیس درہم سے بہتر ہے)، چنانچہ میں لوٹ آیا اور میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا ۱؎۔ ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اوقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس درہم کا ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1628]
1628. اردو حاشیہ: (الحاف) مانگنے کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جب مانگنے والا بے جا اصرار کرے۔اور چمٹ کر مانگے۔باوقار فقراء کی صفت قرآن مجید ن یہ بتائی ہے کہ <قرآن> (يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَاف)(البقرہ 237) بے خبر لوگ ان کو غنی سمجھتے ہیں۔ آپ ان کو ان کی علامات سے پہچانتے ہیں۔یہ لوگوں سے لپٹ کر (اصرار سے) سوال نہیں کرتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1628   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.