الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
The Book of Hunting and Slaughtering
26. بَابُ : الضَّبِّ
26. باب: ضب کا بیان۔
Chapter: Mastigures
حدیث نمبر: 4319
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: وهو على المنبر سئل عن الضب؟، فقال:" لا آكله ولا احرمه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ سُئِلَ عَنِ الضَّبِّ؟، فَقَالَ:" لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے تو ضب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میں اسے نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأطعمة 3 (1790)، (تحفة الأشراف: 7240)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصید 33 (5536)، صحیح مسلم/الصید 7 (1943)، موطا امام مالک/الاستئذان 4 (11)، مسند احمد (2/9، 10، 33، 41، 46، 60، 62، 74، 115)، سنن الدارمی/الصید 8 (2058) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ضب: گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لیے یا طلاء کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر یہ کھایا گیا اس لیے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہء زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے: ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈاز رعی اور پانی والے علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے، اور خوب پانی پیتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے، جلد شکار ہو جاتا ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ - ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے، جب کہ نجدی ضب (گوہ) ایسا نہیں کرتی۔ نجدی ضب (گوہ) کی کھال کو پکا کر عرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے، جس کو ضبة کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانور کو وَرَل کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے: ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے، جو ضب کی خلقت پر ہے، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے، ازہری کہتے ہیں: وَرَل عمدہ قامت اور لمبی دم والا جانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دو ہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے، دم کا رنگ سبز زردی مائل ہوتا ہے، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلا ہو جاتا ہے، اور یہ صرف ٹڈی، چھوٹے کیڑے اور سبز گھاس کھاتی ہے، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی، اور ورل بچھو، سانپ، گرگٹ اور گوبریلا سب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے، تریاق ہے، بہت تیز موٹا کرتا ہے، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کو تیز کرتا ہے، اور اس کی چربی کی مالش سے عضو تناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس: مادہ ورل، و لسان العرب) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب (گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیئے، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبو اٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہو جائے تو اس کا کھانا منع ہے، اس کو اصطلاح میں جلالہ کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہو گا، البتہ برصغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہو گا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کر دی: نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے، اور ورل نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور ورل کا شکار مشکل کام ہے، ضب گھاس کھاتا ہے، اور ورل گوشت کھاتا ہے، ضب چیر پھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے، جب کہ ورل چیر پھاڑ کرنے والا جانور ہے، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے، ضب کھُردرا اور کانٹے دار ہوتا ہے، اور ورل نرم ہوتا ہے، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور دم سے شکار بھی کرتا ہے، ضب گوشت بالکل نہیں کھاتا، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے، ضب تیز جانور ہے، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دم سے مار کرتا ہے، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے، اور وَرل میں کچلی دانت ہے، ضب حلال ہے، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔ صحرائے عرب کا ضب، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورت حال سامنے آ جائے، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بنا پر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایسا جانور ہے جس کو پانی سے پیار اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہو جائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کر کے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہیئے، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیئے اور عاملین حدیث کے نقطہٰ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہیئے۔ گوہ کی کئی قس میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشتر کہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفید ہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے، دم سخت اور چھوٹی، قد بلی کے برابر ہوتا ہے، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے، رنگ زرد سیاہی مائل، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم … اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ (کتاب المفردات: ۴۲۷)، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہور جانور ہے، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے، مزاج گرم و تر بدرجہ اول، افعال و استعمال بطور مقوی جاذب رطوبت، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات: صفحہ ۲۷۵)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري7267عبد الله بن عمركلوا أو اطعموا فإنه حلال أو قال لا بأس به لكنه ليس من طعامي
   صحيح البخاري5536عبد الله بن عمرلست آكله ولا أحرمه
   صحيح مسلم5027عبد الله بن عمرلست بآكله ولا محرمه
   صحيح مسلم5028عبد الله بن عمرلا آكله ولا أحرمه
   صحيح مسلم5029عبد الله بن عمرلا آكله ولا أحرمه
   صحيح مسلم5032عبد الله بن عمركلوا فإنه حلال ولكنه ليس من طعامي
   جامع الترمذي1790عبد الله بن عمرلا آكله ولا أحرمه
   سنن النسائى الصغرى4319عبد الله بن عمرلا آكله ولا أحرمه
   سنن النسائى الصغرى4320عبد الله بن عمرلست بآكله ولا محرمه
   سنن ابن ماجه3242عبد الله بن عمرلا أحرم يعني الضب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم405عبد الله بن عمرلست بآكله ولا محرمه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 405  
´سوسمار (ضب) حلال ہے`
«. . . 297- وبه: أن رجلا نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ما ترى فى الضب؟ فقال: لست بآكله ولا محرمه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کا ضب (سمسار) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 405]

تخریج الحدیث: [وأخرجه الترمذي 1790 وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي 7/197 ح4320، من حديث مالك به ورواه البخاري 5536، ومسلم 1943، من حديث عبدالله دينار به]
تفقه:
➊ ضب (سمسار/سانڈا) حلال ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے حدیث سابق: 70
➋ اگر کوئی حلال چیز پسند نہ ہو تو اسے کھانا ضروری نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 297   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4319  
´ضب کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے تو ضب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میں اسے نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4319]
اردو حاشہ:
(1) سانڈا حلال ہے۔ حدیث میں مذکور الفاظ [وَلَا أُحَرِّمُهُ ]  اس کی تصریح دلیل ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سے بھی صریح ہے کہ انھوں نے ضب، یعنی سانڈے کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: [أحَرامٌ الضَّبُّ يا رَسولَ اللَّهِ؟ ] اے اللہ کے رسول! کیا سانڈا حرام ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [لا، ولَكِنْ لَمْ يَكُنْ بأَرْضِ قَوْمِي، فأجِدُنِي أعافُهُ ] نہیں (سانڈا حرام نہیں) لیکن یہ میری قوم کے علاقے میں نہیں تھا، اس لیے میں اس سے (طبعی طور پر) کراہت محسوس کرتا ہوں۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5391، وصحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 1945)
(2) معلوم ہوا حلال وطیب چیز جو طبعاً ناپسند ہو اسے کھانا ضروری نہیں۔ اس سے اس کی حلت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ناپسند چیز کھانے سے ناخوش گوار اور منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
(3) حدیث میں لفظ ضب استعمال ہوا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اس کے معنی گوہ کیے جاتے ہیں لیکن جو اوصاف ضب کے بیان کیے گئے ہیں، وہ تمام کے تمام سانڈے میں بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے درست بات یہی ہے کہ اس سے مراد سانڈا ہے، گوہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
(4) معلوم ہوا ضب حرام نہیں ورنہ آپ کھانے سے منع فرما دیتے، بلکہ آپ کے دستر خوان پر آپ کے سامنے اسے کھایا گیا۔ باقی رہا آپ کا اسے نہ کھانا تو آپ کی طبع لطیف کا تقاضا تھا۔ آپ بہت سی ایسی چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے جو قطعاً حلال ہیں، مثلاً: لہسن، پیاز وغیرہ۔ حلت اور حرمت الگ چیز ہے اور طبعی کراہت وناپسندیدگی الگ چیز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4319   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1790  
´ضب (گوہ) کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب (گوہ) کھانے کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو آپ نے فرمایا: میں نہ تو اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام کہتا ہوں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1790]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ ضب کھانا حلال ہے،
بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ نے اسے کھانے سے منع فرمایا ہے،
لیکن یہ ممانعت حرمت کی نہیں بلکہ کراہت کی ہے،
کیوں کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
اسے کھاؤ یہ حلال ہے،
لیکن یہ میرا کھانا نہیں ہے،
ضب کا ترجمہ گوہ سانڈا اورسوسمار سے کیا جاتا ہے،
واضح رہے کہ اگران میں سے کوئی قسم گرگٹ کی نسل سے ہے تو وہ حرام ہے،
زہریلا جانور کیچلی دانت والا پنچہ سے شکارکرنے اور اسے پکڑ کر کھانے والے سبھی جانورحرام ہیں۔
ایسے ہی وہ جانور جن کی نجاست وخباثت معروف ہے،
لفظ ضب پر تفصیلی بحث کے لیے سنن ابن ماجہ میں انہی ابواب کا مطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1790   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.