الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
13. بَابُ : الْمُسِنَّةِ وَالْجَذَعَةِ
13. باب: مسنہ اور جذعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4383
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا ابو داود سليمان بن سيف، قال: حدثنا الحسن وهو ابن اعين، وابو جعفر يعني النفيلي، قالا: حدثنا زهير، قال: حدثنا ابو الزبير، عن جابر، قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تذبحوا إلا مسنة إلا ان يعسر عليكم , فتذبحوا جذعة من الضان".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ وَهُوَ ابْنُ أَعْيَنَ، وَأَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي النُّفَيْلِيَّ، قَالَا: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ , فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف مسنہ ذبح کرو سوائے اس کے کہ اس کی قربانی تم پر گراں اور مشکل ہو تو تم بھیڑ میں سے جذعہ ذبح کر دو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحی 2 (1962)، سنن ابی داود/الضحایا 5 (2797)، سنن ابن ماجہ/الضحایا 7 (3141)، (تحفة الأشراف: 2715)، مسند احمد (3/312، 327) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «مُسِنّہ»: وہ جانور ہے جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، اور یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ سال پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، اور گائے اور بیل میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ دو سال پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو گئے ہوں، اور بکری اور بھیڑ میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایک سال پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو جائیں، اور جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، (محققین اہل لغت اور شارحین حدیث کا یہی صحیح قول ہے، دیکھئیے مرعاۃ شرح مشکاۃ المصابیح) لیکن یہاں «مسنہ» سے مراد «مسنۃ من المعز» (یعنی دانت والی بکری) مراد ہے، کیونکہ اس کے مقابلے میں «جذعۃ من الضان» (ایک سال کا دنبا) لایا گیا ہے، یعنی: دانت والی بکری ہی جائز ہے، جس کے سامنے والے دو دانت ٹوٹ چکے ہوں ایک سال کی بکری جائز نہیں، ہاں اگر دانت والی بکری میسر نہ ہو تو ایک سال کا دنبہ جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن النسائى الصغرى4383جابر بن عبد اللهلا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن
   صحيح مسلم5082جابر بن عبد اللهلا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن
   سنن أبي داود2797جابر بن عبد اللهلا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن
   سنن ابن ماجه3141جابر بن عبد اللهلا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4383  
´مسنہ اور جذعہ کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف مسنہ ذبح کرو سوائے اس کے کہ اس کی قربانی تم پر گراں اور مشکل ہو تو تم بھیڑ میں سے جذعہ ذبح کر دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4383]
اردو حاشہ:
(1) دو دانتا جانور قربان کرنا مستحب ہے۔ مسنہ نہ ملنے یاعدم استطاعت کی صورت میں بھیڑ کا جذعہ بھی جائز ہے۔ اس کی عمر کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں کہ کتنی عمر جذعہ قربانی کے قابل ہو گا۔ جمہور اہل علم اور محدثین کا نقطہ نظریہ ہے کہ اس کی عمر سال یا اس کے قریب قریب ہونی چاہیے۔ نیز معلوم ہوا کہ جذعہ، یعنی پکا کھیرا صرف بھیڑ کا قربان ہو سکتا ہے۔ بکری، گائے یا اونٹ وغیرہ کا نہیں۔ حدیث کے الفاظ [فتذبحُوا جذعةً من الضأنِ ] اس کی صریح اور ٹھوس دلیل ہیں۔ اہل علم محدثین وغیرہ کا یہی قول ہے۔
(2) جس جانور کے دانت گر جائیں، اسے عربی زبان میں مسنة يا ثني کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسےدو دانتا اور پنجابی میںدوندا کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے مسنہ کے معنیایک سال کا کیا ہے، حالانکہ یہ معنیٰ لغت کے لحاظ سے صحیح ہیں نہ عرف کے لحاظ سے کیونکہ مسنہ لفظ  مسن سے بنا ہے جس کے معنیٰ دانت ہوتے ہیں، نہ کہ سے جس کے معنیٰ سال کے ہوتے ہیں۔ عرفاََ بھی بکرا ایک سال میں دو دانتا نہیں ہوتا، اکثر بعد میں ہوتا ہے۔ شاذ و نادر طور پر ایک سال کا بھی ہو سکتا ہے مگر عموماََ نہیں۔ حکم عموم کے لحاظ سے ہوتا۔ ہے۔ جبکہ اصل مقصد دانت کا گرنا ہے نہ کہ عمر، اس لیے کہ دانت گرنے کے لیے کوئی عمر معین نہیں، نیز عمر کا تعین بھی مسکل ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص بیچنے کے لیے جھوٹ بھی بول سکتا ہے، مگر دانت گرنا اور اس کی جگہ نیا دانت آنا ایک واضح اور یقینی علامت ہے جس میں فراڈ ممکن نہیں، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ قربانی کا جانور دو دانتا (دوندا) ہو، بکرا ہو یا گائے یا اونٹ اور یہ سب جانور مختلف عمروں میں دو دانتے ہوتے ہیں، البتہ اگر یہ نہ مل سکے یا اس کی استطاعت نہ ہو تو بھیڑ کے جذعہ کی بھی اجازت ہے مگر ضروری ہے کہ وہ موٹا تازہ اور دو دانتے سے قریب ہو۔ بعض لوگوں نے تحدید کی کوشش کی ہے۔ چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک کے اقوال ہیں۔ شک و شبہ سے بچنے کے لیے ایک سال سے کم بھیڑ یا دنبہ کرنا چاہیے۔ لغت میں ایک سال کا قول ہی زیادہ مشہور ہے، جمہور اہل علم نے اسے ہی اختیار کیا۔ عقلاََ بھی یہی بات درست ہے کیونکہ دو دانتا نہ ہونے کی صورت میں کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس سے ملتا جلتا جانور ہی ذبح کیا جائے نہ کہ چھ ماہ کا جو دو دانتے سے بہت کم ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4383   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3141  
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3141]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
علامہ البانی ؒبیان کرتے ہیں کہ حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جذعہ سے مراد بھیڑ کا جذعہ ہے بکری کا جذعہ نہیں۔
حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
یہ گوشت کی بکری ہے۔ (قربانی کی نہیں۔)
انھوں نے کہا:
اے اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس ایک بکری کا جذعہ ہے۔ (کیا میں اس کی قربانی دے دوں؟)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قربان کردو لیکن تمھارے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں۔ (صحيح البخاري، الأضاحي، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لأبي بردة ((ضح بالجذع من المعزولن تجزي عن أحد بعدك)
)

حديث: 5556)

علامہ البانی نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی روشنی میں بھیڑ کا جذعہ (ایک سال کا بچہ جس کے دانت نہ ٹوٹے ہوں)
جائز ہے۔
اور یہ جو از اس شرط کے ساتھ مشروط نہیں کہ دو دانتا (مسنه)
دستیاب نہ ہو، بلکہ مطلق جائز ہے۔
واللہ اعلم۔ دیکھیے: (حاشہ ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث زیر مطالعہ نیز حدیث: 3154 کا فائدہ)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3141   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2797  
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف مسنہ ۱؎ ہی ذبح کرو، مسنہ نہ پاؤ تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2797]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالاحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امت کو مسنہ دو دانتا جانور بطور قربانی ذبح کرنے کا حکم دیا۔
اور وقت اور دشواری کی صورت میں جزع قربانی کرنے کی رخصت عنایت فرمائی، لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
کہ عام حالات میں بھی جبکہ (مسنہ) دو دانتا جانور ملنا مشکل اور دشوار نہ ہو تو جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ بھیڑ کا جذع قربانی کیا۔
(سنن النسائي، الضحایا، باب المسنة و الجذعة، حدیث:4387) او سنن ابی دائود میں عاصم بن کلیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔
کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے ساتھ تھے۔
جن کا نام مجاشع تھا قربانی کے لئے بکریاں تقسیم کی گئیں تو کم ہوگئیں۔
پس انہوں نے ایک منادی کرانے والے کو حکم دیا۔
کہ وہ اعلان کردے کہ رسول للہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔
بلاشبہ جذع (ایک سالہ) مثنی (دو دانتے) کی جگہ کفایت کرتا جاتا ہے۔
(سنن أبي داود، الضحایا، باب مایجوز في الضحایا من السنن، حدیث: 2799) اور اسی طرح ام بلال رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! بھیڑ کے جزع کی قربانی کرو۔
اس لئے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔
(مسند أحمد:368/6) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جزع قربانی کیا جا سکتا ہے، البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے مسنہ (دو دانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن حجر اس کی بابت فتح الباری میں فرماتے ہیں۔
امام نووی نے جمہور علماء سے نقل کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پرمحمول کیا ہے۔
(فتح الباري: 20/10) (جذع) یہ صرف بھیڑ (دنبہ چھتر) میں جائز ہے۔
دیگر جانوروں کے بچوں کو اس عمر میں قربانی کرنا جائز نہیں۔
رسول اللہﷺ نے چند ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مجبوری کی صورت میں رخصت اور اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا۔
تیرے بعد کسی اور کے لئے ایسا کرنا درست نہیں۔
(صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5556) اور یہ بھی احتمال ہے کہ شروع میں دونوں قسم کا جذع جائز ہو بعد میں بکری کے جذع کی قربانی کرنے سے منع کردیا ہو۔
بھیڑ (دنبہ۔
چھترا)
کا جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہے۔
لیکن اس کی عمر کتنی ہو اس بارے میں اختلاف ہے۔
بعض نے ایک سال مدت بتلائی ہے۔
بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ۔
امام نووی اس کی بابت فرماتے ہیں۔
جزع کی عمر کے بارے میں سب سے راحج قول یہ ہے کہ اس کی عمر مکمل ایک سال ہو۔
(کتاب المجموع:365/8) حافظ ابن حجر اس کی بابت یوں فرماتے ہیں۔
جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ (دنبہ چھترا) کا جزع وہ ہے۔
جس کی عمر کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو۔
(فتح الباري: 21/10) لہذا جو حضرات بھیڑ (دنبہ۔
چھترا)
کی قربانی چاہتے ہوں۔
وہ اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں۔
کہ اس کی عمر کم از کم ایک سال ہو۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2797   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.