الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of Salah
5. بَابُ : الْبَيْعَةِ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ
5. باب: پانچوں نمازوں پر بیعت کرنے کا بیان۔
Chapter: Making A Pledge To Offer The Five Daily Prayers
حدیث نمبر: 461
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا ابو مسهر، قال: حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن ابي إدريس الخولاني، عن ابي مسلم الخولاني، قال: اخبرني الحبيب الامين عوف بن مالك الاشجعي، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: الا تبايعون رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فرددها ثلاث مرات، فقدمنا ايدينا فبايعناه، فقلنا: يا رسول الله، قد بايعناك، فعلام؟ قال:" على ان تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا والصلوات الخمس، واسر كلمة خفية ان لا تسالوا الناس شيئا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ، قال: أَخْبَرَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ، قال: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَدَّدَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدَّمْنَا أَيْدِيَنَا فَبَايَعْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَعَلَامَ؟ قَالَ:" عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً أَنْ لَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا".
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا، تو ہم سب نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ سے بیعت تو کر لی، لیکن یہ بیعت کس چیز پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے، اور آپ نے ایک اور بات آہستہ سے کہی کہ لوگوں سے کچھ مانگو گے نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 35 (1043) مطولاً، سنن ابی داود/الزکاة 27 (1642) مطولاً، سنن ابن ماجہ/الجہاد 41 (2867) مطولاً، (تحفة الأشراف: 10919) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   سنن النسائى الصغرى461عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا الصلوات الخمس لا تسألوا الناس شيئا
   صحيح مسلم2403عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا الصلوات الخمس تسمعوا وتطيعوا لا تسألوا الناس شيئا
   سنن أبي داود1642عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا تصلوا الصلوات الخمس تسمعوا وتطيعوا لا تسألوا الناس شيئا
   سنن ابن ماجه2867عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا تقيموا الصلوات الخمس تسمعوا وتطيعوا لا تسألوا الناس شيئا
   سلسله احاديث صحيحه472عوف بن مالكالا تبايعون رسول الله؟! - فرددها ثلاث مرات-: على ان تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، والصلوات الخمس- واسر كلمة خفية-[و] ان لا تسالوا الناس شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 461  
´پانچوں نمازوں پر بیعت کرنے کا بیان۔`
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا، تو ہم سب نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ سے بیعت تو کر لی، لیکن یہ بیعت کس چیز پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے، اور آپ نے ایک اور بات آہستہ سے کہی کہ لوگوں سے کچھ مانگو گے نہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 461]
461 ۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں چار قسم کی بیعت رائج تھی: ٭بیعت اسلام، یعنی اسلام لاتے وقت۔ ٭ہجرت کرنے کے لیے بیعت۔ ٭بیعت جہاد، یعنی کسی لڑائی کے وقت، مثلاً: صلح حدیبیہ کے وقت۔ ٭بیعت اطاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کے لیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے۔ پھر بیعت اسلام کی بجائے بیعت خلافت شروع ہو گئی۔ بیعت جہاد قائم رہی، البتہ بیعت اطاعت ختم ہو گئی، گویا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔ صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں ایسا ہی رہا۔ بعد میں صوفیائے کرام نے بیعت لینا شروع کر دی، اپنے سلسلے میں داخل کرنے کے لیے اور اپنی ہر بات کی اطاعت کرانے کے لیے، یہ ایک نئی چیز ہے، اگر یہ بیعت اطاعتِ شریعت ہے تو جواز ہو سکتا ہے مگر صحابہ و تابعین نے ایسے نہیں کیا، لہٰذا مستحسن نہیں۔ اور اگر یہ اپنی اطاعت کی بیعت ہے تو ممنوع ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی مطاع نہیں کہ اس کی اطاعت مطلقاً جائز ہو۔ بیعت سے متعلق دیگر احکام و مسائل بالتفصیل کتاب البیعۃ میں ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 461   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2867  
´بیعت کا بیان۔`
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت تو کر چکے لیکن یہ کس بات پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کرو، حکم سنو اور مانو، پھر ایک بات چپکے سے فرمائی: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو، راوی کا بیان ہے کہ (اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2867]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت ابومسلم ؒ کی اپنے استاد کی تعریف کرنے سے سلف صالحین میں استاد کے احترام اور ان کی محبت کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔
طالب علم کا اپنے استاد سے تعلق ایسا ہی ہونا چاہیے۔

(2)
بیعت اسلام یا بیعت خلافت کے علاوہ کسی نیک کام کے التزام یا گناہ سے اجتناب کے لیے بھی کسی نیک عالم کے ہاتھ بیعت کی جا سکتی ہے۔
اس بیعت کی حیثیت محض ایک وعدے کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وعدہ کرنے والے کے لیے نیکی پر قائم رہنے یا گناہ سے بچنے میں آسانی ہوتی ہے۔

(3)
مروجہ خانقاہی نظام میں بہت سی غیر شرعی اشیاء استعمال ہوچکی ہیں۔
اس بیعت سے اس مکمل نظام کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔

(4)
خود دا ری ایک مطلوب اسلامی وصف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2867   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1642  
´بھیک مانگنے کی کراہت کا بیان۔`
ابومسلم خولانی کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے پیارے اور امانت دار دوست عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سات، آٹھ یا نو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟، جب کہ ہم ابھی بیعت کر چکے تھے، ہم نے کہا: ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ تین بار دہرایا چنانچہ ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور آپ سے بیعت کی، ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! ہم ابھی بیعت کر چکے ہیں؟ اب کس بات کی آپ سے بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے اور (حکم) سنو گے اور اطاعت کرو گے، ایک بات آپ نے آہستہ سے فرمائی، فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے، چنانچہ ان لوگوں میں سے بعض کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا کوڑا زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے اتنا بھی سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دیدے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی حدیث سعید کے علاوہ کسی اور نے بیان نہیں کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1642]
1642. اردو حاشیہ:
➊ بھیک مانگنا اور اس کو اپنی عادت بنالینا عزت وقار اخلاق اورشرع ہر اعتبار سے بہت بُری عادت ہے۔عام ضرورت کی اشیاء بھی مانگ کرگزارہ کرنا بہت بُری اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔
➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کاپاس عہد بے مثل اور زریں کلمات سے لکھنے کے قابل ہے۔
➌ بیعت اس عہد معاہدے کوکہتے ہیں۔جودو افراد میں طے پایاجاتا ہے۔ اسلام میں ایک بیعت اسلام ہے۔ دوسری بیعت جہاد اور تیسری بیعت استرشاد وتوبہ ہے۔خیر القرون میں پہلی دو بیعتوں کا ثبوت ملتاہے۔ خلفائے راشدین ااور ان کے بعد ایک زمانے تک صرف یہی بیعتیں جاری رہی ہیں۔تیسری صرف رسول اللہ ﷺ سے ہی خاص سمجھی گئی ہے۔ مگر بعض صالحین اس تیسری بعیت کے قائل وفائل ہیں۔ جس کی شرعی اہمیت محل نظر ہے۔ اور اہل بدعت نے جو اس میں غلو کیا ہے اللہ کی پناہ وہ سراسربدعت ہے۔ خواہ وہ کیسا ہی ظلم کیوں نہ کریں۔الا یہ کہ (کفر بواح) صریح کفر کا ارتکاب کریں۔اس مسئلے کی تفصیل کےلئے حاکم ومحکوم کے حقوق وفرائض اور روابط کا موضوع دیکھا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1642   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.