الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
80. بَابُ : بَيْعِ الْمَشَاعِ
80. باب: مشترکہ مال بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling Something In Which Someone Else Has A Share
حدیث نمبر: 4650
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن زرارة , قال: انبانا إسماعيل , عن ابن جريج , قال: اخبرني ابو الزبير , عن جابر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشفعة في كل شرك ربعة , او حائط لا يصلح له ان يبيع حتى يؤذن شريكه , فإن باع فهو احق به حتى يؤذنه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شِرْكٍ رَبْعَةٍ , أَوْ حَائِطٍ لَا يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ , فَإِنْ بَاعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفعہ کا حق ہر چیز میں ہے، زمین ہو یا کوئی احاطہٰ (باغ وغیرہ)، کسی حصہ دار کے لیے جائز نہیں کہ اپنے دوسرے حصہ دار کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ بیچے، اگر اس نے بیچ دیا تو وہ (دوسرا حصہ دار) اس کا زیادہ حقدار ہو گا یہاں تک کہ وہ خود اس کی اجازت دیدے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 28 (البیوع49) (1608)، سنن ابی داود/البیوع 75 (3513)، (تحفة الأشراف: 2806)، مسند احمد (3/312، 316، 357، 397)، سنن الدارمی/البیوع 83 (2670)، ویأتي عندالمؤلف برقم: 4705 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «شفعہ»: زمین، باغ گھر وغیرہ میں ایسی ساجھے داری کو کہتے ہیں جس میں کسی فریق کا حصہ متعین نہ ہو کہ ہمارا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے اور دوسرے کا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے بس مطلق ملکیت میں سب کی ساجھے داری ہو، ایسا ساجھے دار اگر اپنا حصہ بیچنا چاہتا ہے تو دوسرے شریک کو پہلے بتائے، اگر وہ اسی قیمت پر لینے پر راضی ہو جائے تو اسی کا حق ہے، اگر جازت دیدے تب دوسرے سے بیچنا جائز ہو گا، اور اگر اس کی اجازت کے بغیر بیچ دیا تو وہ اس بیع کو قاضی منسوخ کرا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري2496جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2213جابر بن عبد اللهالشفعة في كل مال لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري6976جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2495جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح مسلم4129جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك في أرض أو ربع أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يعرض على شريكه فيأخذ أو يدع إن أبى فشريكه أحق به حتى يؤذنه
   صحيح مسلم4128جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة أو حائط لا يحل له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إذا باع ولم يؤذنه فهو أحق به
   جامع الترمذي1369جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعته ينتظر به إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   جامع الترمذي1312جابر بن عبد اللهمن كان له شريك في حائط فلا يبيع نصيبه من ذلك حتى يعرضه على شريكه
   سنن أبي داود3514جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   سنن أبي داود3513جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه
   سنن أبي داود3518جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   سنن النسائى الصغرى4709جابر بن عبد اللهالشفعة والجوار
   سنن النسائى الصغرى4705جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة وحائط لا يحل له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إن باع ولم يؤذنه فهو أحق به
   سنن النسائى الصغرى4650جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه
   سنن ابن ماجه2499جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   سنن ابن ماجه2494جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   المعجم الصغير للطبراني513جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك في ربع أو حائط لا يصلح له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه فيأخذ أو يدع
   بلوغ المرام763جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   مسندالحميدي1309جابر بن عبد اللهأيكم كانت له أرض أو نخل فلا يبعها حتى يعرضها على شريكه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4650  
´مشترکہ مال بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفعہ کا حق ہر چیز میں ہے، زمین ہو یا کوئی احاطہٰ (باغ وغیرہ)، کسی حصہ دار کے لیے جائز نہیں کہ اپنے دوسرے حصہ دار کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ بیچے، اگر اس نے بیچ دیا تو وہ (دوسرا حصہ دار) اس کا زیادہ حقدار ہو گا یہاں تک کہ وہ خود اس کی اجازت دیدے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4650]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد مشترکہ چیز کی بیع کا حکم بیان کرنا ہے۔ اگر کوئی شریک اپنا حصہ بیچنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دیگر شرکاء سے اس کی اجازت لے۔ اگر کوئی شخص اپنے شریک کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کر دے تو اس کے شریک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس رقم کے عوض جو اس حصے کی لگ چکی ہو یہ حصہ لے لے۔ اس کا حق دیگر تمام لوگوں سے زیادہ اور فائق ہے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ شریک کے لیے شفعے کے ثبوت کی صریح دلیل ہے۔ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔
(3) شریعت مطہرہ کے اصول و ضوابط لوگوں کی خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ ایک چیز میں مختلف شرکاء باہمی مشاورت اور دوسرے کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی کوئی اقدام کر سکتے ہیں۔ مشترکہ چیز میں بلا مشاورت تصرف کرنے والے کا تصرف معتبر نہیں ہو گا۔
(4) شفعہ سے مراد وہ حق ہے جو ایک شریک کو دوسرے شریک کے حصے پر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کی فروخت کی صورت میں وہ اسے خریدنے کا دوسروں سے بڑھ کو حق دار ہو گا۔ لیکن یہ حق مشترکہ چیز ہی میں ہے۔ جب کوئی چیز تقسیم ہو جائے، حد بندی ہو جائے، راستے تک الگ الگ ہو جائیں اور کچھ بھی اشتراک باقی نہ رہے تو یہ حق بھی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اب شریک نہیں رہے، صرف پڑوس کی بنا پر کسی کو یہ حق نہیں مل سکتا۔ یہ مسئلہ تفصیلاً پیچھے بیان ہو چکا ہے۔
(5) ہر مشترکہ چیز بعض فقہاء نے اشیائے منقولہ کو شفعہ سے خارج کیا ہے مگر اس کی کوئی عقلی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جن وجوہ کی بنا پر شفعہ مشروع کیا گیا ہے وہ منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد میں برابر پائی جاتی ہیں۔
(6) اس روایت سے ثابت ہوا کہ مشترکہ چیز ساری کی ساری بھی بیچی جا سکتی ہے اور اس کے کچھ مخصوص حصے بھی، یعنی کوئی شریک صرف اپنا حصہ بھی فروخت کر سکتا ہے، خواہ شریک کو بیچے یا اس کی اجازت سے کسی اور کو۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4650   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499  
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔

(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔

(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔

(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369  
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.