الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
The Book of Drinks
50. بَابُ : الْحَثِّ عَلَى تَرْكِ الشُّبُهَاتِ
50. باب: شبہ والی چیزیں چھوڑنے کی ترغیب کا بیان۔
Chapter: Encouragement to Avoid Doubtful Matters
حدیث نمبر: 5713
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا حميد بن مسعدة , عن يزيد وهو ابن زريع , عن ابن عون , عن الشعبي , عن النعمان بن بشير , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الحلال بين وإن الحرام بين , وإن بين ذلك امورا مشتبهات" , وربما قال:" وإن بين ذلك امورا مشتبهة , وساضرب في ذلك مثلا إن الله عز وجل حمى حمى , وإن حمى الله ما حرم , وإنه من يرع حول الحمى يوشك ان يخالط الحمى" , وربما قال:" يوشك ان يرتع وإن من خالط الريبة يوشك ان يجسر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ , عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ , وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَاتٍ" , وَرُبَّمَا قَالَ:" وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَةً , وَسَأَضْرِبُ فِي ذَلِكَ مَثَلًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَمَى حِمًى , وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَا حَرَّمَ , وَإِنَّهُ مَنْ يَرْعَ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْحِمَى" , وَرُبَّمَا قَالَ:" يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ وَإِنَّ مَنْ خَالَطَ الرِّيبَةَ يُوشِكُ أَنْ يَجْسُرَ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام (بھی) واضح ہے، ان کے درمیان شبہ والی کچھ چیزیں ہیں ۱؎، میں تم سے ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ کی باڑھ لگائی ہے (اور اللہ کی چراگاہ محرمات ہیں) جو بھی اس باڑھ کے اردگرد چرائے گا، عین ممکن ہے کہ وہ چراگاہ میں بھی چرا ڈالے۔ (کبھی «يوشك أن يخالط الحمى» کے بجائے «يوشك أن يرتع» کہا) (معنی ایک ہے الفاظ کا فرق ہے)، اسی طرح جو شبہ کا کام کرے گا ممکن ہے وہ آگے (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے۔ ۱؎: کبھی «إن بين ذلك أمور مشتبهات» کے بجائے یوں کہا: «إن بين ذلك أمورا مشتبهة» مفہوم ایک ہی ہے بس لفظ کے واحد و جمع ہونے کا فرق ہے، گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں: حلال، حرام اور مشتبہ، پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں، جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ، اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ایک کھجور پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کا ہو سکتا ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے۔ کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جسارت کر سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4458 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاري52نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس من اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه من وقع في الشبهات كراع يرعى حول الحمى يوشك أن يواقعه لكل ملك حمى حمى الله في أرضه محارمه في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله
   صحيح البخاري2051نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بينهما أمور مشتبهة
   صحيح مسلم4094نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس من اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه من وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه لكل ملك حمى حمى الله محارمه في الجسد مضغة
   جامع الترمذي1205نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بين ذلك أمور مشتبهات لا يدري كثير من الناس أمن الحلال هي أم من الحرام من تركها استبراء لدينه وعرضه فقد سلم من واقع شيئا منها يوشك أن يواقع الحرام من يرعى حول الحمى يوشك أن يواقعه لكل ملك حمى حمى الله محارم
   سنن أبي داود3329نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بينهما أمور مشتبهة سأضرب لكم في ذلك مثلا الله حمى حمى حمى الله ما حرم من يرع حول الحمى يوشك أن يخالطه من يخالط الريبة يوشك أن يجسر
   سنن النسائى الصغرى5713نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بين ذلك أمورا مشتبهات سأضرب في ذلك مثلا الله حمى حمى حمى الله ما حرم من يرع حول الحمى يوشك أن يرتع وإن من خالط الريبة يوشك أن يجسر
   سنن النسائى الصغرى4458نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بين ذلك أمورا مشتبهات سأضرب لكم في ذلك مثلا الله حمى حمى حمى الله ما حرم من يرتع حول الحمى يوشك أن يخالط الحمى
   سنن ابن ماجه3984نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بينهما مشتبهات لا يعلمها كثير من الناس من اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه من وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي حول الحمى يوشك أن يرتع فيه لكل ملك حمى حمى الله محارمه في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله
   بلوغ المرام1266نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه ومن وقع في الشبهات
   مسندالحميدي943نعمان بن بشيرحلال بين وحرام بين، وشبهات بين ذلك، فمن ترك ما اشتبه عليه من الإثم كان لما استبان له أترك، ومن اجترأ على ما شك فيه، أوشك أن يواقع الحرام، وإن لكل ملك حمى، وحمى الله في الأرض معاصيه
   مسندالحميدي944نعمان بن بشيرمثل المؤمنين في تباذلهم وتوادهم وتراحمهم، كمثل الإنسان، إذا اشتكى عضو من أعضائه تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر
   مسندالحميدي945نعمان بن بشيرفي الإنسان مضغة، إذا هي صلحت وسلمت سلم لها سائر الجسد، وصح، وإذا هي سقمت سقم لها سائر الجسد وفسد، وهي القلب
   مسندالحميدي947نعمان بن بشيرحلال بين وحرام بين، وشبهات بين ذاك، فمن ترك ما اشتبه عليه من الإثم كان لما استبان له أترك، ومن اجترأ على ما شك فيه، يوشك أن يواقع الحرام، كمن رتع إلى جانب الحمى، يوشك أن يقع فيه، وإن لكل ملك حمى، وحمى الله في الأرض معاصيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 52  
´ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے`
«. . . يَقُولُ:" الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 52]

تشریح:
باب کے منعقد کرنے سے حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر ہمارا مذہب یہی ہے کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے اور فرماتے ہیں:
«قد اجمع العلماءعلي عظم موقع هذاالحديث وانه احدالاحاديت الاربعة التى عليهامدارالاسلام المنظومة فى قوله:»
«عمدة الدين عندنا كلمات . . . مسندات من قول خير البرية»
«اتق الشبه و ازهدن و دع ما . . . ليس يعينك واعملن بنية»
یعنی اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے جیسا کہ اس رباعی میں ہے کہ دین سے متعلق ارشادات نبوی کے یہ چند کلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں۔ شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیا کرو، فضولیات سے بچو اور نیت کے مطابق عمل کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 52   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266    
مشتبہ امور سے بچنے کا حکم
«عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول:- واهوى النعمان بإصبعيه إلى اذنيه - ‏‏‏‏إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك ان يقع فيه الا وإن لكل ملك حمى إلا وإن حمى الله محارمه الا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله الا وهى القلب . ‏‏‏‏ متفق عليه»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ نعمان نے یہ بات اپنی انگلیاں کانوں کی طرف لے جاتے ہوئے کہی۔ یقیناً حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص شبہوں سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی اور جو شبہ کی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا جیسا کہ وہ شخص جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد مویشی چرانے والا ہے قریب ہے کہ اس میں جا پڑے یاد رکھو ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے خبردار اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار اور جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے یاد رکھو وہ دل ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1266]
دنیا سے بےرغبتی اور پرہیزگاری کا بیان
«الزهد» کسی چیز کی رغبت کم ہونا۔ مراد دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طرف ساری توجہ رکھنا ہے۔
نووی نے اربعین کی شرح میں فرمایا زہد یہ ہے کہ دنیا کی غیر ضروری چیزیں چھوڑ دے خواہ حلال ہی ہوں اور انہیں چیزوں پر گزارہ کرے جن کے بغیر چارہ نہیں۔ [مسك الختام]
ترمذی اور ابن ماجہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں زہد حلال کو حرام کر لینے اور مال کو ضائع کر دینے کا نام نہیں بلکہ دنیا میں زہد یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس پر تمہیں ان چیزوں سے زیادہ بھروسہ ہو جو تمہارے ہاتھ میں ہیں اور تمہیں کوئی مصیبت اگر پہنچے تو اس کے ثواب کی رغبت اس سے زیادہ ہو کہ وہ مصیبت تمہیں نہ پہنچتی۔ صاحب سبل نے فرمایا یہ نبوی تفسیر دوسری تفسیروں سے مقدم ہے۔
مگر یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔ ترمذی نے فرمایا: اس میں عمرہ بن واقد منکر الحدیث ہے۔ البانی نے بھی اسے ضعیف جدا قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [ضعيف الترمذي حديث 405]
«الورع» بچنا مراد حرام سے بچنا بلکہ حرام سے بچنے کے لئے شبہ کی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا ہے۔

تخریج:
[بخاري 52]،
[مسلم المساقاة/107]

فوائد:
حلال ظاہر ہے۔ کسی کو اس کے حلال ہونے میں شک نہیں، مثلاً پھل، روٹی، شہد، دودھ اور کھانے پینے کی عام چیزیں، اسی طرح خرید و فروخت اور دوسرے معاملات جو سب جانتے ہیں کہ حلال ہیں۔ حرام ظاہر ہے مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، زنا، غیبت، چغلی اور جھوٹ وغیرہ ان دونوں کا حکم واضح ہے جس کی حرمت صاف قرآن و حدیث میں آ گئی وہ حرام ہے جس کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا وہ حلال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی وہ بھی حلال ہے اور اسی طرح جس چیز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور احسان فرمایا وہ بھی حلال ہے۔
ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ ان کی مشابہت حلال سے بھی ہے اور حرام سے بھی، ان کا حکم بہت سے لوگ نہیں جانتے صرف پختہ عالم ہی جانتے ہیں، اگر کوئی شخص حرام سے بچنا چاہے تو وہ ان مشتبہ چیزوں سے بھی بچے کیوں کے اگر ان چیزوں کا استعمال شروع کر دے گا تو حرام سے صحیح نفرت باقی نہیں رہے گی آہستہ آہستہ واضح حرام چیزوں کا استعمال بھی شروع کر دے گا۔
جو شبہات میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قریب ہے کہ وہ حرام میں جا پڑے کیونکہ اگر یہ مطلب نہ ہو تو پھر مشتبہات صاف ہی حرام کی قسم بن جائیں گی جبکہ یہ بات درست نہیں۔
جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی۔ کیوں کے شبہات سے بچے گا تو صریح حرام سے بد درجہ اولی بچے گا اس سے اس کا دین محفوظ ہو گیا عزت اس لئے کہ اگر شبہ والی چیزیں استعمال کرے گا تو عام لوگ بدگمان ہو جائیں گے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے گا۔
➎ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں گری ہوئی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا: اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کے مال سے ہو گی تو میں اسے کھا لیتا۔ [متفق عليه]
➏ تمام مکروہ چیزوں سے بچنا بھی اس میں شامل ہے کیونکہ مکروہ سے نفرت ختم ہوتی ہے تو آدمی حرام تک جا پہنچتا ہے۔ اگر مکروہ چیزوں سے نفرت قائم رہے تو حرام کی ارتکاب کی دلیری نہیں ہوتی۔
➐ جسم کے درست یا خراب ہونے کا اصل مرکز دل ہے۔ کیونکہ سارے اعضاء دل ہی کی بات مانتے ہیں، دل کہتا ہے تو ہاتھ اٹھ جاتا ہے آنکھ کھل جاتی ہے پاؤں چل پڑتے ہیں اور اگر وہ کہتا ہے تو آنکھ بند ہو جاتی ہے ہاتھ نیچے ہو جاتا ہے اور پاؤں رک جاتے ہیں۔ دل کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو عقل اس کے جواز کے دلائل کا انبار لگا دیتی ہے اگر نفرت کرتا ہے تو دوسری جانب کی دلیلیں نکال لاتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 101   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5713  
´شبہ والی چیزیں چھوڑنے کی ترغیب کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام (بھی) واضح ہے، ان کے درمیان شبہ والی کچھ چیزیں ہیں ۱؎، میں تم سے ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ کی باڑھ لگائی ہے (اور اللہ کی چراگاہ محرمات ہیں) جو بھی اس باڑھ کے اردگرد چرائے گا، عین ممکن ہے کہ وہ چراگاہ میں بھی چرا ڈالے۔ (کبھی «يوشك أن يخالط الحمى» کے بجائے «يوشك أن يرتع» کہا) (معنی ایک ہے الفاظ ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5713]
اردو حاشہ:
یہ روایت اور اس سے متعلقہ مسائل پیچھے(حدیث: 4458 میں) گزرچکے ہیں۔ اس جگہ اس حدیث کو ذکر کرنے سے امام ؒ کا مقصود یہ ہے کہ خمر تو قطعاً حرام ہے اور اس پر سب متفق ہیں۔عام نشہ آور مشروب بھی جمہور اہل علم کے نزدیک شراب کی طرح حرام ہے۔ کچھ لوگ اسے تھوڑی مقدار میں جائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح صحیح اور مشہور احادیث تواس کو حرام قراردیتی ہے البتہ بعض ضعیف اور غیر معروف روایات سے اس کی حلت کشید کی جاتی ہے لہٰذا یہ اگر حرام نہ بھی ہو تو مشتبہ ضرور ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مشتبہ کے ترک کو بھی ضروری قراردیا ہے تاکہ حرام سے بچا جا سکے۔ عام نشہ آور مشروب کا استعمال خمر تک لے جائے گا اور قلیل و کثیر کی دعوت دے گا اس لیے اس لحاظ سے بھی اس کا ترک ضروری ہے اور اس کی حلت کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ مشتبہ چیز حلال نہیں ہوتی بلکہ حلال اور حرام کے بین بین ہوتی ہے۔ اہل فتوٰ ی اور تقوٰی کا اس پر اتفاق ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5713   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3984  
´شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔`
شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا روز مرہ کے اعمال ان میں کچھ واضح طور پر حلال ہیں جن میں کوئی شک نہیں مثلاً:
روٹی، شہد، اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوئے حلال جانور کا گوشت، جائز ضرورت کے لیے کہیں آنا جانا اور کسی سے بات چیت کرنا وغیرہ۔
کچھ چیزیں اور کا م واضح طور پر حرام ہیں مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، مردار، جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ۔
بعض چیزیں اور کام ایسے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں۔
عام لوگ ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔
علماء ان کا حکم قرآن وحدیث کے الفاظ کے اشارات واقتضاء سے یا قیاس وغیرہ سے معلوم کرتے ہیں۔

(2)
جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو مسئلہ پوچھنے سے پہلے بھی اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملے کی ایک صورت جائز اور ایک ناجائز ہو، مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد صحیح اور راجح موقف کے مطابق عمل کیا جائے۔

(3)
مشکوک چیز پر عمل کرنے سے گناہ کا اندیشہ تو ہوتا ہی ہے عوام بھی بد ظن ہوتے ہیں۔
انسان کو بلاوجہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ بدنام ہوجائے۔

(4)
جس کام سے ممنوع کام تک نوبت پہنچنے کا خطرہ ہواس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے جیسے غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنا اگرچہ پردہ کی پابندی کے ساتھ ہو اس سے خطرہ ہے کہ شیطان گناہ کی خواہش پیدا کردے اور دونوں افراد کبیرہ گناہ میں ملوث ہوجائیں۔

(5)
مثال دے کر سمجھانے سے مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور سننے والا اس پر اطمینان اور دل کی آمادگی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔

(6)
دل کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ اخلاص یقین اور اللہ کی محبت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوں۔
ان کی وجہ سے نیکی پر عمل کرنا اور اور گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3984   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور نعمان اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے کانوں کی طرف لے گئے حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ان دونوں کے درمیان شبہات ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان کو نہیں جانتی۔ پس جو کوئی شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پھنس گیا۔ جیسے چرواہا کہ چراگاہ کے گرد مویشی چراتا ہو تو کبھی نہ کبھی مویشی چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! حرام چیزیں اللہ کی چراگاہ ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1266»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، حديث:52، ومسلم، المساقاة، باب أخذ الحلال وترك الشبهات، حديث:1599.»
تشریح:
1. یہ حدیث اصول اسلام میں سے شمار کی گئی ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ حلال اور حرام چیزیں تو واضح ہیں ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے‘ البتہ مشتبہات ایسی چیزیں ہیں جن کی حرمت واضح نہیں یا جن کے بارے میں دلائل دونوں جانب تقریباًمساوی ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے بچنا چاہیے اور ظن و تخمین سے کام نہیں لینا چاہیے۔
2.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدن کی اصلاح اور اس کے بگاڑ کا انحصار دل پر ہے۔
پورے جسم میں اس کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کی ہے۔
تمام اعضائے بدن اس کی رعیت اور عوام ہیں۔
اگر بادشاہ نیک ہو تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر وہ برا ہو تو رعایا بھی بری ہوگی۔
3. ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن پر قواعد اسلام کا دار و مدار ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1266   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1205  
´مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1205]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مرادایسے امورومعاملات ہیں جن کی حلت وحرمت سے اکثرلوگ ناواقف ہو تے ہیں،
تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریزکرے،
اور جوشخص حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیران میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلاہوگیا،
اس میں تجارت اورکاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیارکریں جو واضح طورپر حلال ہوں اورمشتبہ امورومعاملات سے اجتناب کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1205   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.