الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
2. باب مَا جَاءَ إِذَا أَدَّيْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ
2. باب: زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 619
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا علي بن عبد الحميد الكوفي، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن انس، قال: كنا نتمنى ان ياتي الاعرابي العاقل، فيسال النبي صلى الله عليه وسلم ونحن عنده، فبينا نحن كذلك إذ اتاه اعرابي فجثا بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد إن رسولك اتانا فزعم لنا انك تزعم ان الله ارسلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فبالذي رفع السماء وبسط الارض ونصب الجبال آلله ارسلك؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا خمس صلوات في اليوم والليلة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا صوم شهر في السنة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صدق "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا في اموالنا الزكاة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صدق "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا الحج إلى البيت من استطاع إليه سبيلا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، فقال: والذي بعثك بالحق لا ادع منهن شيئا ولا اجاوزهن، ثم وثب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن صدق الاعرابي دخل الجنة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير هذا الوجه عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، سمعت محمد بن إسماعيل، يقول: قال بعض اهل العلم: فقه هذا الحديث ان القراءة على العالم والعرض عليه جائز مثل السماع. واحتج بان الاعرابي عرض على النبي صلى الله عليه وسلم، فاقر به النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنَّا نَتَمَنَّى أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ، ثُمَّ وَثَبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ عَلَى الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْهِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ. وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد ہم سے کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں (کیا ایسا ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں (کیا یہ صحیح ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں وہ (سچ کہہ رہا ہے) اعرابی نے مزید کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (دیا ہے)، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (اس نے سچ کہا)۔ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (دیا ہے) اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو (کیا یہ سچ ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (حج فرض ہے) اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (دیا ہے) تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا ۳؎، پھر یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کر سنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے ۴؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلومات پیش کیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 6 (تعلیقا عقب حدیث رقم: 63)، صحیح مسلم/الإیمان 3 (12)، سنن النسائی/الزکاة 1 (2093)، (تحفة الأشراف: 404)، مسند احمد (3/143، 193)، سنن الدارمی/الطہارة 1 (656) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ ہمیں سورۃ المائدہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کا علم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔
۲؎: اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔
۳؎: اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے، مسلم کی روایت میں «والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص» کے الفاظ آئے ہیں۔
۴؎: یعنی «سماع من لفظ الشیخ» کی طرح «القراءۃ علی الشیخ» (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ «قراءۃ علی الشیخ» جائز نہیں، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ «سماع من لفظ الشیخ» (استاذ کی زبان سے سننے) کا ہے، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت «سمعت، سمعنا، حدثنا، حدثني، أخبرنا، أخبرني، أنبأنا، أنبأني» کے صیغے استعمال کرتا ہے، اس کے برخلاف «قراءۃ علی الشیخ» (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد «قرأت على فلان» يا «قري على فلان وأنا أسمع»، يا «حدثنا فلان قرائة عليه» کہہ کر روایت کرتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج إيمان ابن أبي شيبة (4 / 5)

   صحيح البخاري63أنس بن مالكآلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال اللهم نعم أمرك أن نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة قال اللهم نعم
   صحيح مسلم102أنس بن مالكمن خلق السماء قال الله قال فمن خلق الأرض قال الله قال فمن نصب هذه الجبال وجعل فيها ما جعل قال الله قال فبالذي خلق السماء وخلق الأرض ونصب هذه الجبال آلله أرسلك قال نعم قال وزعم رسولك أن علينا خمس صلوات في يومنا وليلتنا قال صدق
   جامع الترمذي619أنس بن مالكآلله أرسلك فقال النبي نعم رسولك زعم لنا أنك تزعم أن علينا خمس صلوات في اليوم والليلة فقال النبي نعم قال فبالذي أرسلك آلله أمرك بهذا قال نعم رسولك زعم لنا أنك تزعم أن علينا صوم شهر في السنة
   سنن النسائى الصغرى2093أنس بن مالكمن خلق السماء قال الله من خلق الأرض قال الله من نصب هذه الجبال قال الله آلله أرسلك قال نعم زعم رسولك أن علينا خمس صلوات في يومنا وليلتنا قال صدق زعم رسولك أن علينا زكاة في أموالنا قال صدق زعم رسولك أن علينا صوم شهر رمضان في سنتنا قال صدق زعم رسولك أن علين
   سنن النسائى الصغرى2094أنس بن مالكآلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال رسول الله اللهم نعم آلله أمرك أن تصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة
   سنن النسائى الصغرى2095أنس بن مالكآلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال رسول الله اللهم نعم أمرك أن تصوم هذا الشهر من السنة قال قال رسول الله اللهم نعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 63  
´روایت حدیث کا ایک طریقہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ . . .»
. . . انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کون سے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 63]

تشریح:
مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے «فاناخ بعيره على باب المسجد» یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ «مبارك اللهم نعم» کا استعمال فرماتے رہے۔ «اللهم» تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا۔ یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔

حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن پھر خود حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آ سکتی ہو تو ملاقات کر کے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 63   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 619  
´زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 619]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ ہمیں سورہ مائدہ میں نبی اکرم ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا،
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔

2؎:
اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔

3؎:
اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے،
مسلم کی روایت میں ((وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ وَلاَ أَنْقُصُ)) کے الفاظ آئے ہیں۔

4؎:
یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے،
مؤلف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائز نہیں،
صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے،
اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت سمعت،
سمعنا،
حدثنا،
حدثني،
أخبرنا،
أخبرني،
أنبأنا،
أنبأني کے صیغے استعمال کرتا ہے،
اس کے بر خلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع،
يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کر روایت کرتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 619   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.