الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث 657 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نکاح کے مسائل
निकाह करना
9. بچہ صاحب بستر کا ہے
“ बच्चा उस का होगा जिस के बिस्तर पर जन्म लेगा ”
حدیث نمبر: 360
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
41- وبه: عن عروة عن عائشة انها قالت: كان عتبة بن ابى وقاص عهد إلى اخيه سعد بن ابى وقاص ان ابن وليدة زمعة مني فاقبضه إليك، قالت: فلما كان عام الفتح اخذه سعد، وقال: ابن اخي، قد كان عهد إلى فيه، فقام إليه عبد بن زمعة فقال: اخي وابن وليدة ابي، ولد على فراشه. فتساوقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال سعد: يا رسول الله، ابن اخي قد كان عهد إلى فيه. وقال عبد بن زمعة: اخي وابن وليدة ابي، ولد على فراشه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هو لك يا عبد بن زمعة.“ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الولد للفراش وللعاهر الحجر.“ ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لسودة بنت زمعة: ”احتجبي منه“: لما راى من شبهه بعتبة. قالت: فما رآها حتى لقي الله عز وجل.41- وبه: عن عروة عن عائشة أنها قالت: كان عتبة بن أبى وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبى وقاص أن ابن وليدة زمعة مني فاقبضه إليك، قالت: فلما كان عام الفتح أخذه سعد، وقال: ابن أخي، قد كان عهد إلى فيه، فقام إليه عبد بن زمعة فقال: أخي وابن وليدة أبي، ولد على فراشه. فتساوقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال سعد: يا رسول الله، ابن أخي قد كان عهد إلى فيه. وقال عبد بن زمعة: أخي وابن وليدة أبي، ولد على فراشه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هو لك يا عبد بن زمعة.“ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الولد للفراش وللعاهر الحجر.“ ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لسودة بنت زمعة: ”احتجبي منه“: لما رأى من شبهه بعتبة. قالت: فما رآها حتى لقي الله عز وجل.
اور اسی سند کے ساتھ عروہ (بن الزبیر) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو (مرتے وقت) یہ ذمہ داری سونپی کہ ذمعہ (بن قیس بن عبدالشمس) کی لونڈی کا بیٹا میرے نطفے سے ہے لہٰذا اسے اپنے قبضے میں رکھنا۔ فتح مکہ والے سال سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے، میرے بھائی نے اس کے بارے میں مجھے ذمہ داری سونپی تھی۔ تو عبد بن زمعہ نے اس کی طرف کھڑے ہو کر کہا: میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ سعد نے کہا: یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے، میرے بھائی نے مجھے اس کے بارے میں وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ لڑکا عتبہ (بن ابی وقاص) سے مشابہ ہے تو آپ نے اپنی بیوی سودہ بنت زمعہ (بن قیس) سے فرمایا: تم اس سے پردہ کرو۔ آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: پس اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو ان کی وفات تک نہیں دیکھا۔
इसी सनद के साथ अरवह (बिन अल-ज़ुबैर) से रिवायत है कि हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा ने कहा ! उत्बह बिन अबी वक़ास ने अपने भाई सअद बिन अबी वक़ास को (मरते समय) ये ज़िम्मे दारी सौंपी कि ज़मअह (बिन क़ेस बिन अब्दुश्शम्स) की लौंडी का बेटा मेरे नुतफ़े से है इस लिए उसे अपने क़ब्ज़े में रखना। मक्का की विजय के वर्ष सअद ने उस लड़के को ले लिया और कहा ! ये मेरा भतीजा है, मेरे भाई ने इस के बारे में मुझे ज़िम्मे दारी सौंपी थी। तो अब्दु बिन ज़्मआह ने उस की तरफ़ खड़े हो कर कहा ! मेरा भाई है और मेरे पिता की लौंडी का बेटा है और इस के बिस्तर पर पैदा हुआ है। दोनों रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास गए। सअद ने कहा ! या रसूल अल्लाह ! ये मेरे भाई का बेटा है, मेरे भाई ने मुझे इस के बारे में वसीयत की थी। अब्दु बिन ज़्मआह ने कहा ! मेरा भाई है और मेरे पिता की लौंडी का बेटा है और उस के बिस्तर पर पैदा हुआ है। तो रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “ऐ अब्दु बिन ज़्मआह ! ये तुम्हारे हवाले है, औलाद इसी की मानी जाए गी जिस के बिस्तर पर पैदा हो, और ज़ानी के लिए पत्थर (संगसार करना) है।” फिर रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने जब देखा कि लड़का उत्बह (बिन अबी वक़ास) से जैसा है तो आप ने अपनी पत्नी सोदह बिन्त ज़्मआह (बिन क़ेस) से फ़रमाया ! “तुम इस से पर्दा करो।” आप (आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा ने) कहा ! बस उस लड़के ने सोदह रज़ि अल्लाहु अन्ह को उन की मृत्यु तक नहीं देखा।

تخریج الحدیث: «41- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 739/2 ح 1488، ك 36 ب 21 ح 20) التمهيد 178/8، الاستذكار: 1412، و أخرجه البخاري (6749) من حديث مالك به ورواه مسلم (1457) من حديث ابن شهاب الزهر به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: عتبة بن وقاص و سعد بن وقاص.»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري2533عائشة بنت عبد اللهإن عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن يقبض إليه ابن وليدة زمعة قال عتبة إنه ابني فلما قدم رسول الله زمن الفتح أخذ سعد ابن وليدة زمعة فأقبل به إلى رسول الله وأقبل معه بعبد بن زمعة فقال سعد يا رسول الله
   صحيح البخاري2218عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة فلم تره سودة قط
   صحيح البخاري2421عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري6749عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري2745عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه
   صحيح البخاري6765عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري6817عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري7182عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه لما رأى من شبهه بعتبة فما رآها حتى لقي الله
   صحيح البخاري2053عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح مسلم3613عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن أبي داود2273عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي عنه يا سودة
   سنن النسائى الصغرى3514عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن النسائى الصغرى3517عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   سنن ابن ماجه2004عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي عنه يا سودة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم360عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش وللعاهر الحجر
   مسندالحميدي240عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش واحتجبي منه يا سودة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 360  
´بچہ صاحب بستر کا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش وللعاهر الحجر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 360]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6749، من حديث مالك به ورواه مسلم 1457 من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی ہوئی پھر اس کے (نو مہینے) بعد اس عورت کا بچہ یا بچی پیدا ہوئی۔ یہ بچہ یا بچی اس آدمی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس حدیث کی رو سے ثابت ہوا کہ یہ اسی آدمی کا بچہ یا بچی ہے الا یہ کہ باپ اس کا انکار کر دے یا کوئی شرعی قرینہ پایا جائے۔
● بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں آدمی کا بیٹا ہے، اس کا ثبوت تقلید کرنے سے ہی ملتا ہے۔‏‏‏‏ ان لوگوں کا یہ قول باطل ہے کیونکہ بیٹے یا بیٹی کا ثبوت اس صحیح حدیث (اور دوسری احادیث) سے ملتا ہے۔ جب نکاح ثابت ہو جائے تو اولاد خود بخود ثابت ہو جاتی ہے جو اس نکاح کے بعد باپ کے بستر پر پیدا ہوئی ہے۔ باپ کے بستر سے مراد یہ ہے کہ وہ فلاں عورت کا شوہر ہے۔
➋ احتیاط کرنا اور مشتبہ اشیاء سے بچنا افضل ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ» جس چیز کے بارے میں تمہیں شک و شبہ ہو تو اسے چھوڑ دو اور جس چیز کے بارے میں شک و شبہ نہ ہو (یقین ہو) اسے لے لو۔ [سنن الترمذي: 2518 وسنده صحيح، وقال الترمذي: هٰذا حديث صحيح و صححه ابن خزيمة: 2348 وابن حبان، الموارد:512 والحاكم 13/2 والذهبي]
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں امہات المومنین اور صحابہ کرام ہر وقت پیش پیش اور مستعد رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ بغیر کسی شری قرینے کے تمام نصوص شرعیہ کے ظاہر پر عمل ہو گا۔
➎ زنا کی سزا رجم (سنگسار / پتھر مار مار کر مار دینا) ہے بشرطیکہ زنا کرنے والا شادی شدہ ہو۔ «الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار المتناثره فى الاخبار المتواتره 82 و نظم المتناثر من الحديث المتواتر 181]
● اسی طرح یہ بھی متواتر ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو زنا کی وجہ سے سنگسار کیا گیا تھا۔ دیکھئے: [قطف الازهار 83 ولفظ الآلي المتناثره فى الأحاديث المتواتره 47 ونظم المتناثر 182]
◄ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ شادی شدہ زانی کو سزائے رجم دینا متواتر، قطعی اور یقینی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض منکرین حدیث کا سزائے رجم کا انکار کرنا باطل اور مردود ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 54، البخاري: 6633, 6634]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 41   
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1247  
´جوتا پہننے اور اتارنے کے آداب`
«وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا انتعل احدكم فليبدا باليمين وإذا نزع فليبدا بالشمال ولتكن اليمنى اولهما تنعل وآخرهما تنزع. متفق عليه»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کوئی شخص جوتا پہنے تو دائیں سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں سے شروع کرے اور دایاں پاؤں دونوں میں سے پہلے ہو جس میں جوتا پہنا جائے اور دونوں سے آخری ہو جس سے جوتا اتارا جائے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1247]
تخریج:
[بخاري: 5855]،
[مسلم: اللباس 5495]،
[بلوغ المرام: 1247]،
[تحفة الاشراف 191/10]

فوائد:
➊ وہ تمام کام جو زینت یا عزت یا شرف کا باعث ہوں انہیں دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے:
«كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن فى تنعله وترجله وطهوره وفي شأنه كله»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں جانب سے شروع کرنا پسند تھا آپ کے جوتا پہننے میں کنگھی کرنے میں وضو میں اور اپنے تمام کاموں میں۔ [متفق عليه]
مثلاً شلوار پہننا، مسجد میں پاؤں رکھنا، سرمہ لگانا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دائیں جانب میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ قوت اور صلاحیت رکھی ہے جس کی وجہ سے دائیں جانب زیادہ تکریم کی حق دار ہے۔
➋ جو کام اس کے برعکس ہوں ان میں بائیں طرف سے ابتداء کرنی چاہئے مثلاً مسجد سے نکلتے اور بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت بایاں پاؤں پہلے رکھے۔
➌ جوتا پہننا چونکہ باعث عزت و زینت ہے اس لئے دائیں پاؤں سے ابتداء کا حکم دیا۔ اور جوتا اتارنے میں اس کا الٹ ہے اس لئے دائیں پاؤں سے آخر میں جوتا اتارنے کا حکم دیا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ دیر تک مزین رہے۔ [قاله الحليمي۔ فتح]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پینے، کپڑا پہننے اور وضو کے لئے دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ اور استنجاء اور میل کچیل وغیرہ کی صفائی کے لئے بایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ [ابوداود كتاب الطهارة باب 18]، ناک بھی بائیں ہاتھ سے صاف کرتے تھے۔ [سنن الدارمي حديث 701]
➎ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں ہاتھ استعمال کرنے سے محبت رکھتے تھے دائیں ہاتھ سے چیز لیتے دائیں سے ہی دیتے اور دائیں طرف اختیار کرنے کو اپنے تمام کاموں میں محبوب رکھتے۔ [نسائي/ الزينة باب 8 صحيح النسائي]
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 49   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2004  
´بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: عبد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2004]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دور جاہلیت میں کسی کی لونڈی سے ناجائز تعلق قائم کرنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اسلام میں صرف اپنی بیوی اور اپنی مملوکہ سے صنفی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔
باقی ہر قسم کا صنفی تعلق قابل سزا جرم ہے۔ (دیکھئے: سورۃ مومنون، آیت: 5، 6، 7)
جس طرح بیوی سے پیدا ہونے والا لڑکا مرد کا بیٹا ہوتا ہے، اسی طرح اپنی مملوکہ لونڈی سے پیدا ہونے والا لڑکا بھی مرد کا آزاد بیٹا ہوتاہے، غلام نہیں۔

(3)
جاہلیت میں ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ اسی شخص کا بیٹا سمجھا جاتا تھا جس کے تعلقات کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا۔
جاہلیت کے اسی رواج کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص، زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہونےوالے بچے کو اپنے بھا ئی کا بچہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی کفالت میں رکھنا چاہتے تھے۔

(4)
حضرت عبد بن زمعہ کا موقف یہ تھا کہ وہ بچہ قانونی طور پر ان کا بھائی ہے کیونکہ ان کے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا حقیقی باپ کوئی بھی ہو۔

(5)
  بچے کی ظاہری شکل و شباہت سے یہی ثابت ہورہا تھا کہ وہ حضرت سعد کے بھائی سے پیدا ہوا ہے لیکن قانونی طور پر وہ حضرت عبد بن زمعہ کا بھائی قرار پایا۔

(6)
چونکہ واضح ہورہاتھا کہ وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اصل میں بھائی نہیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔

(7)
  بعض اوقات ایک مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دو مختلف حکم مرتب ہوتےہیں۔
ایک معاملے میں ایک پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں دوسرے پہلو کو، جیسے اس لڑکے کو زمعہ کا بیٹا قرار دیے جانے کے باوجود اس کی بہن حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2004   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2273  
´بچہ صاحب فراش کا ہو گا (یعنی جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی بچہ اسی کو ملے گا)۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2273]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھے تو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔
کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھا کہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔
قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔
تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔
اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنا دیا گیا تھا۔


(وللعاهرِ الحجرُ) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔
مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگا کہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔
حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سے وہ محروم ہی رہے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2273   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.