حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من لكعب بن الاشرف، فقال: محمد بن مسلمة اتحب ان اقتله، قال: نعم، قال: فاذن لي فاقول، قال: قد فعلت".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ، فَقَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأْذَنْ لِي فَأَقُولَ، قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کعب بن اشرف کے لیے کون ہمت کرتا ہے؟“ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں اسے قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں!“ انہوں نے عرض کیا کہ پھر آپ مجھے اجازت دیں (کہ میں جو چاہوں جھوٹ سچ کہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میری طرف سے اس کی اجازت ہے۔“
Narrated Jabir: The Prophet said, "Who is ready to kill Ka`b bin Ashraf (i.e. a Jew)." Muhammad bin Maslama replied, "Do you like me to kill him?" The Prophet replied in the affirmative. Muhammad bin Maslama said, "Then allow me to say what I like." The Prophet replied, "I do (i.e. allow you).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 271
إنما هو أبو نائلة أخي، لو وجدني نائما ما أيقظني، وإن الكريم لو دعي إلى طعنة لأجابها، وسمى الذين أتوه مع محمد بن مسلمة، وعباد بن بشر، وأبي عبس بن جبر، والحارث بن معاذ
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3032
حدیث حاشیہ: یہاں چونکہ کعب بن اشرف پر دھوکہ سے اچانک حملہ کرنے کا ذکر ہے جو حضرت محمد مسلمہؓ نے کیا تھا‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ مزید تفصیل مذکور ہوچکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3032
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3032
حدیث حاشیہ: 1۔ کعب بن اشرف یہودیوں کا طاغوت تھا۔ اشعار میں رسول اللہ ﷺ کی ہجوکرتا اور آپ کے لیے اذیت کا باعث تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کردینے کی خواہش کا اظہار کیا توحضرت محمد بن مسلمہ ؓنے اس کارخیر کی ذمہ داری قبول کی اور اسے قتل کردیا۔ یہ کہنادرست نہیں کہ محمد بن مسلمہ ؓ نے کعب بن اشرف کو امن دے کر قتل کیا تھا بلکہ انھوں نے خرید و فروخت کی بات کی اور ا س سے انس پیداکیا،پھر موقع پاکراسے قتل کردیا۔ 2۔ اسی چالاکی ہوشیاری کانام جنگ ہے جس کے بغیر چارہ نہیں۔ آج کے مشینی دور میں بھی دشمن کی گھات میں بیٹھنا اقوام کا معمول ہے۔ اسلام میں یہ اجازت صرف حربی کافروں کے مقابلے کے لیے ہے،بصورت دیگر کسی کو دھوکے میں رکھ کر کوئی اقدام کرنا شرعاً جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3032
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2768
´دشمن کے پاس دھوکہ سے پہنچنا اور یہ ظاہر کرنا کہ وہ انہی میں سے ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو کعب بن اشرف ۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے“، یہ سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، کہہ سکتے ہو“، پھر انہوں نے کعب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2768]
فوائد ومسائل: 1۔ کعب بن اشرف یہودی کا تعلق بنو نضیرسے تھا۔ وہ بڑا مال داراور شاعر تھا۔ اسے مسلمانوں سے سخت عداوت تھی۔ اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتا رہتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کا دفاع کرنے کی بجائے مکہ جا کر قریش کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔ اور عہد شکنی بھی کی۔
2۔ دشمن پر وار کرنے کےلئے بناوٹی طور پر کچھ ایسی باتیں بنانا جو بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوں۔ وقتی طور پر جائز ہے۔ اور جنگ دھوکے (چال بازی) کا نام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2768
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1287
1287- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کون شخص کعب بن الاشرف سے میری جان چھرائے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا ہے۔“ تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند کریں گے کہ میں اسے قتل کردوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔“ انہوں نے عرض کی: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، کعب بن الاشرف کے پاس آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1287]
فائدہ: اس حدیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غیرت اور جرٱت کا ثبوت ملتا ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ یا اس کے نبی کے بارے میں بُرے الفاظ استعمال کرے تو اس کوقتل کر دینا چاہیے، جیسے کعب بن اشرف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کے گھر جا کر اس کو قتل کر دیا، اس طرح کی غیرت ایمانی کے کئی واقعات کتب سیر میں ملتی ہیں۔ بچوں کو رہن (گروی) رکھنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تکریم دی ہے: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ﴾(بنی اسرائیل: 70) کوئی اور چیز گروی رکھنا ٹھیک ہے مصلحت کی خاطر امیر کا مسلمانوں کو برا بھلا کہنا درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1286
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4664
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔“ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ انہوں نے عرض کیا، تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عنایت فرمائیں، آپﷺ نے فرمایا: ”کہہ سکتے ہو۔“ تو وہ کعب کے پاس آئے اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کیں،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4664]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) کعب بن اشرف، قبیلہ طے کی شاخ بنو نبہان سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے عربی النسل تھا، اس کے باپ اشرف نے کسی کو قتل کر ڈالا، اس لیے بھاگ کر مدینہ آ گیا اور بنو نضیر سے دوستانہ قائم کر لیا اور ابو الحقیق یہودی کی بیٹی عقیلہ سے شادی کر لی، جس سے کعب پیدا ہوا، واقعہ بدر کے بعد اس نے مسلمانوں کی ہجو شروع کر دی اور دشمنان اسلام کی مدح سرائی کرنے لگا، پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے، ان کی آتش انتقال تیز کرنے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان سرداران قریش کا نوحہ و ماتم کرنے لگا، جنہیں جنگ بدر میں قتل کرنے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا، پھر صحابہ کرام کی عورتوں کے بارے میں واہیات شعر کہنے لگا اور اپنی زبان درازی اور بدگوئی کے ذریعہ مسلمانوں کو سخت اذیت پہنچائی، ان حالات سے تنگ آ کر آپ نے اس کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کیا۔ (2) رضیعہ اور ابو نائلہ کے درمیان واو وہم ہے کیونکہ رضیع سے مراد ابو نائلہ ہی ہے۔ ابو نائلہ، محمد بن مسلمہ اور کعب بن اشرف تینوں رضاعی بھائی تھے، اس کے باوجود کینہ خصلت اور مسلمانوں کا دشمن محمد بن مسلمہ بیوی اور بیٹا گروی رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے، اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کس قدر موذی انسان تھا، جو صرف آپ کا ہی نہیں بلکہ سب مسلمانوں اور دین کا دشمن تھا، اس لیے ایسے موذی انسان کا قتل کروانا سب کو آرام اور سکون پہنچانا ہے۔ تفصیل کے لیے الرحیق المختوم دیکھئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4664
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2510
2510. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے کون اٹھتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔“ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اسے میں قتل کرں گا، چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہاکہ ہم ایک یا دو وسق غلہ قرض لینا چاہتے ہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: تم اپنی بیویاں میرے پاس گروی رکھ دو۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنی بیویاں تیرے پاس گروی کیسے رکھ سکتے ہیں جبکہ تو عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے؟ اس نے کہا: اپنے بیٹوں کو رہن رکھ دو۔ انھوں نےکہا: ہم اپنے بیٹے کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایساکرنے سے لو گ انھیں طعنہ دیں گے کہ انھیں ایک یادو وسق اناج کے بدلے گروی رکھا گیاتھا؟ اور یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے البتہ ہم تیرے پا ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں، چنانچہ اس سے یہ وعدہ کرلیا کہ وہ اس کے پاس ہتھیار لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2510]
حدیث حاشیہ: کعب بن اشرف مدینہ کا سرمایہ دار یہودی تھا۔ اسلام آنے سے اس کو اپنے سرمایہ دارانہ وقار کے لیے ایک بڑا دھچکا محسوس ہوا اور یہ شب و روز اسلام کی بیخ کنی کے لیے تدابیر سوچتا رہتا تھا۔ بدر میں جو کافر مارے گئے تھے ان کا نوحہ کرکے کفار مکہ کو نبی کریم ﷺ سے لڑنے کے لیے ابھارتا رہتا اور آپ کی شان میں ہجو اور تنقیص کے اشعار گھڑتا۔ اس ناپاک مشن پر وہ ایک دفعہ جنگ بدر کے بعد مکہ بھی گیا تھا۔ آخر آنحضرت ﷺ نے اس کی ناشائستہ حرکات سے تنگ آکر اس کا مسئلہ مجمع صحابہ میں رکھا جس پر حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ انہوں نے آپ سے اجازت لی کہ میں اس کے پاس جاکر آپ کے بارے میں جو کچھ مناسب ہوگا، اس کے سامنے کہوں گا۔ اس کی اجازت دیجئے۔ آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی تو حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کعب کے رضائی بھائی ابونائلہ کو ساتھ لے کر رات کو اس کے پاس گئے۔ اس نے قلعہ کے اندر بلالیا اور جب ان کے پاس جانے لگا تو اس کی عورت نے منع کیا، وہ بولا کوئی غیر نہیں ہے۔ محمد بن مسلمہ ہے اور میرا بھائی ابونائلہ محمد بن مسلمہ کے ساتھ ہے اور بھی دو یا تین شخص تھے۔ ابوعبس بن جبر، حارث بن اوس، عباد بن بشر۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا کہ میں کعب کے بال سونگھنے کے بہانے اس کا سرتھاموں گا۔ تم اس وقت جب دیکھو کہ میں سر کو مضبوط تھامے ہوا ہوں، اس کا سر تلوار سے قلم کردینا۔ پھر محمد بن مسلمہ ؓ جب کعب کے پاس آئے تو، یہی کہا کہ اے کعب! میں نے تمہارے سر جیسی خوشبو تمام عمر میں نہیں سونگھی۔ وہ کہنے لگا کہ میرے پاس ایک عورت ہے جو عرب کی ساری عورتوں سے زیادہ معطر ہے اور خوشبودار رہتی ہے۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے اس کا سر سونگھنے کی اجازت مانگی اور کعب کے سر کو مضبوط تھام کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کردیا۔ انہوں نے تلوار سے سر اڑا دیا اور لوٹ کر دربار رسالت میں یہ بشارت پیش کی۔ آپ بہت خوش ہوئے اور ان مجاہدین اسلام کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کی کنیت ابوعبداللہ انصاری ہے اور یہ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے ہیں۔ کعب بن اشرف کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی بتلائی گئی ہے کہ اس نے اپنا عہد توڑ دیا تھا۔ اس طور پر وہ ملک کا غدار بن گیا اور بار بار غداری کی حرکات کرتا رہا۔ لہٰذا اس کی آخری سزا یہی تھی جو اسے دی گئی۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کعب کے ہاں ہتھیار رہن رکھنے کا ذکر فرمایا۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2510
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3031
3031. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” کعب بن اشرف کا کام تمام کون کرے گا؟اس نے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔“ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ کو پسند ہے کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ راوی کابیان ہے کہ اس کے بعد محمد بن مسلمہ ؓ کعب یہودی کے پاس آئے اور کہنے لگے: اس نبی کریم ﷺ نے تو ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے، ہم سے صدقات مانگتا ہے۔ کعب نے کہا: واللہ!تم اس سے بھی زیادہ تنگ پڑ جاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے کہا کہ اب تو ہم نے اس کی پیروی کرلی ہے، اس لیے اس وقت اس کا ساتھ چھوڑنا مناسب خیال نہیں کرتے جب تک اس کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آجائے۔ الغرض وہ بہت دیر تک اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے حتیٰ کہ موقع پاکر اسے قتل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3031]
حدیث حاشیہ: کعب بن اشرف یہودی مدینہ میں مسلمانوں کا سخت ترین دشمن تھا جو روزانہ مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازش کرتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ قریش مکہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف ابھارتا اور ہمیشہ مسلمانوں کی گھات میں لگا رہتا لیکن اللہ پاک کو اسلام اور مسلمانوں کی بقا منظور تھی اس لئے بایں صورت اس فسادی کو ختم کرکے اسے جہنم رسید کیا گیا‘ سچ ہے ؎ نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ابو رافع کی طرح یہ مردود بھی مسلمانوں کی دشمنی پر تلا ہوا تھا۔ رسول کریمﷺ کی ہجو کرتا اور شرک کو دین اسلام سے بہتر بتاتا‘ مشرکوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے اکساتا‘ ان کی روپے سے مدد کرتا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کے خاتمہ کے لئے اجازت مانگی کہ میں جو مناسب ہوگا آپ کی نسبت شکایت کے کلمے کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دے دی۔ محمد بن مسلمہؓ کی اس سے یہ غرض تھی کہ کعب کو میرا اعتبار پیدا ہو‘ ورنہ وہ پہلے ہی چونک جاتا اور اپنی حفاظت کا بندوبست کرلیتا۔ بعضوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے کیونکہ محمد بن مسلمہؓ کا کوئی جھوٹ اس میں مذکور نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مجتہد مطلق حضرت امام بخاریؒ نے اپنی عادت کے موافق اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں صاف یہ مذکور ہے کہ انہوں نے چلتے وقت آنحضرتﷺ سے اجازت لے لی تھی کہ میں آپ کی شکایت کروں گا‘ جو چاہوں وہ کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دی اس میں جھوٹ بولنا بھی آگیا۔ آخر محمد بن مسلمہؓ نے کعب کو باتوں باتوں میں کہا یار تیرے سر سے کیا عمدہ خوشبو آتی ہے۔ وہ مردود کہنے لگا میرے پاس ایک عورت ہے جو سارے عرب میں افضل ہے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا یار ذرا اپنے بال مجھ کو سونگھنے دو اس نے کہا سونگھو‘ محمد بن مسلمہؓ نے اس بہانے اس کے بال درمیان سر سے پکڑ کر مضبوط تھام لئے اور ساتھیوں کو اشارہ کردیا‘ انہوں نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا سر قلم کردیا‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3031
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4037
4037. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کعب بن اشرف کی کون خبر لیتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت تکلیف دی ہے۔“ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کا کام تمام کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ انہوں نے عرض کی: پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جو مناسب خیال کروں، اس سے کہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے اجازت ہے۔“ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: یہ شخص ہم سے صدقہ مانگتا ہے اور اس نے ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے، لہذا میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بولا: اللہ کی قسم! ابھی تو تم اس سے اور بھی تکلیف اٹھاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اب تو ہم نے اس کی اتباع کر لی ہے، ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، جبکہ تک دیکھ نہ لیں کہ آگے کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4037]
حدیث حاشیہ: کعب بن اشرف کا کام تمام کرنے والے گروہ کے سردار حضرت محمد بن مسلمہ ؓ تھے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے وعدہ تو کرلیا مگر کئی دن تک متفکر رہے۔ پھر ابو نائلہ کے پاس آئے جو کعب کارضاعی بھائی تھا اور عباد بن بشر اور حارث بن اوس۔ ابو عبس بن جبر کو بھی مشورہ میں شریک کیا اور یہ سب مل کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم جو مناسب سمجھیں کعب سے ویسی باتیں کریں۔ آپ نے ان کو بطور مصلحت اجازت مرحمت فرمائی اور رات کے وقت جب یہ لوگ مدینہ سے چلے تو آنحضرت ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔ چاندنی رات تھی۔ آپ نے فرمایا جاؤ اللہ تمہاری مدد کرے۔ کعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا اور بڑا مال دار آدمی تھا۔ اسلام سے اسے سخت نفرت اور عداوت تھی۔ قریش کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ابھارتا تھا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح دھوکے سے آنحضرت ﷺ کو قتل کرا دے۔ فتح الباری میں ایک دعوت کا ذکر ہے جس میں اس ظالم نے اس غرض فاسد کے تحت آنحضرت ﷺ کو مدعو کیا تھا مگر حضرت جبرئیل ؑ، نے اس کی نیت بد سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کردیا اور آپ بال بال بچ گئے۔ اس کی ان جملہ حرکات بد کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے اس کو ختم کرنے کے لیے صحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر فرمایا جس پر محمد بن مسلمہ انصاری ؓ نے آمادگی کا اظہار کیا۔ کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کا ماموں بھی ہوتا تھا۔ مگر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کا رشتہ دنیاوی سب رشتوں سے بلند وبالا تھا۔ بہر حل اللہ تعالی نے اس ظالم کو بایں طور ختم کرایا جس سے فتنوں کا دروازہ بند ہوکر امن قائم ہوگیا اور بہت سے لوگ جنگ کی صورت پیش آنے اور قتل ہونے سے بچ گئے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ بن مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ كَانَ شَاعِرًا وَكَانَ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٌ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتِصْلَاحَهُمْ وَكَانَ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ يُؤْذُونَ الْمُسْلِمِينَ أَشَدَّ الْأَذَى فَأَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ وَالْمُسْلِمِينَ بِالصَّبْرِ فَلَمَّا أَبَى كَعْبٌ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَاهُ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رهطا ليقتلوه وَذكر بن سَعْدٍ أَنَّ قَتْلَهُ كَانَ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنَ السَّنَةِ الثَّالِثَةِ(فتح الباري) خلاصہ یہ کہ کعب بن اشرف شاعر تھا جو شعروں میں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتا اور کفار قریش کو آپ کے اوپر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتا۔ آنحضرت ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں کے باشندے آپس میں خلط ملط تھے۔ آنحضرتﷺنے ان کی اصلاح وسدھار کا بیڑا اٹھایا۔ یہودی اور مشرکین آنحضرت ﷺ کو سخت ترین ایذائیں پہنچانے کے درپے رہتے۔ پس اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کو صبر کا حکم فرمایا۔ جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حدسے زیاد ہ بڑھنے لگیں اور ایذا رسانی سے باز نہ آیا تب آپ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حکم فرمایا کہ ایک جماعت کو بھیجیں جو اس کا خاتمہ کرے۔ ابن سعد نے کہا کہ کعب بن اشرف کا قتل3ھ میں ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4037
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2510
2510. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے کون اٹھتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔“ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اسے میں قتل کرں گا، چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہاکہ ہم ایک یا دو وسق غلہ قرض لینا چاہتے ہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: تم اپنی بیویاں میرے پاس گروی رکھ دو۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اپنی بیویاں تیرے پاس گروی کیسے رکھ سکتے ہیں جبکہ تو عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے؟ اس نے کہا: اپنے بیٹوں کو رہن رکھ دو۔ انھوں نےکہا: ہم اپنے بیٹے کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایساکرنے سے لو گ انھیں طعنہ دیں گے کہ انھیں ایک یادو وسق اناج کے بدلے گروی رکھا گیاتھا؟ اور یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے البتہ ہم تیرے پا ہتھیار گروی رکھ دیتے ہیں، چنانچہ اس سے یہ وعدہ کرلیا کہ وہ اس کے پاس ہتھیار لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2510]
حدیث حاشیہ: (1) کعب بن اشرف ایک یہودی سردار تھا۔ جنگ بدر میں جب قریش کے بڑے بڑے طاغوت مارے گئے تو اس نے اہل مکہ کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ اپنے اشعار میں مسلمان عورتوں کا مذاق اُڑاتا اور رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ (2) شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے ”زرہ گروی رکھنے“ کے بعد مذکورہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ زرہ ایک دفاعی ہتھیار ہے، جارحانہ نہیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جارحانہ ہتھیار بھی گروی رکھا جا سکتا ہے۔ اس استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ روایت میں ہتھیار گروی رکھنے کی بات بطور چال تھی، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن چال ہونے کے باوجود کعب بن اشرف کو یہ باور کرایا گیا کہ تیرے ساتھ جو معاملہ کر رہے ہیں یہ ہمارے ہاں جائز اور مباح ہے، اس پر معاملہ ہوا۔ امام بخاری ؒ نے اس سے استدلال کر لیا۔ (فتح الباري: 177/5)(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے حق میں گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے اگرچہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو، لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقام پر علامہ عینی ؒ نے بڑی جراءت اور ہمت سے کہا: میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والا مطلق طور پر واجب القتل ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ (عمدة القاري: 30/5) علمائے حق کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ حق کی پیروی کرتے ہیں، خواہ وہ حق ان کے اپنے کسی محبوب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور آپ کی اتباع کا یہی تقاضا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2510
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3031
3031. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” کعب بن اشرف کا کام تمام کون کرے گا؟اس نے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی ہے۔“ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ کو پسند ہے کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ راوی کابیان ہے کہ اس کے بعد محمد بن مسلمہ ؓ کعب یہودی کے پاس آئے اور کہنے لگے: اس نبی کریم ﷺ نے تو ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے، ہم سے صدقات مانگتا ہے۔ کعب نے کہا: واللہ!تم اس سے بھی زیادہ تنگ پڑ جاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے کہا کہ اب تو ہم نے اس کی پیروی کرلی ہے، اس لیے اس وقت اس کا ساتھ چھوڑنا مناسب خیال نہیں کرتے جب تک اس کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آجائے۔ الغرض وہ بہت دیر تک اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے حتیٰ کہ موقع پاکر اسے قتل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3031]
حدیث حاشیہ: 1۔ کعب بن اشرف مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا جو روازنہ مسلمانوں کے خلاف ایک نئی سازش تیار کرتا۔ رسول اللہ ﷺ کی ہجوکرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ مشرکین مکہ کو مسلمانوں پرحملہ کرنے کے لیے اکساتا اور ان کی مالی مدد بھی کرتاتھا۔ آخر محمد بن مسلمہ ؓنے اس کاخاتمہ کرکے اسے جہنم رسید کیا۔ 2۔ اگرچہ اس روایت میں جھوٹ بولنے کا ذکر نہیں ہے،تاہم امام بخاری ؒنے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محمد بن مسلمہ ؓنے روانہ ہوتے وقت رسول اللہ ﷺسے اجازت طلب کی تھی کہ آپ کی شکایت کرتے ہوئےے جو چاہوں کہوں گا تو آپ نے اسے اجازت دی۔ اس میں جھوٹ بولنا بھی آجاتا ہے۔ بہرحال دوران جنگ میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے جیسا کہ ترمذی کی روایت میں پہلے بیان ہوچکا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3031
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4037
4037. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کعب بن اشرف کی کون خبر لیتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت تکلیف دی ہے۔“ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کا کام تمام کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ انہوں نے عرض کی: پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جو مناسب خیال کروں، اس سے کہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے اجازت ہے۔“ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: یہ شخص ہم سے صدقہ مانگتا ہے اور اس نے ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے، لہذا میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بولا: اللہ کی قسم! ابھی تو تم اس سے اور بھی تکلیف اٹھاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اب تو ہم نے اس کی اتباع کر لی ہے، ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، جبکہ تک دیکھ نہ لیں کہ آگے کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4037]
حدیث حاشیہ: 1۔ کعب کا باپ اشرف بنونہیان قبیلے سے تھا۔ دورجاہلیت میں اس نے کسی آدمی کو قتل کردیا، پھر وہاں سے بھاگ کر مدینہ طیبہ میں آگیا اور بنو نضیر سے عہدوپیمان کرلیا، پھر اس نے ابوالحقیق کی لڑکی عقیلہ سے شادی کی تو اس سے کعب پیدا ہوا۔ اس کے قتل کرنے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں: الف۔ غزوہ بدر کے بعد اس نے قریش کو جگ پر ابھارا اورہرقسم کے مال واسباب کے ساتھ تعاون کایقین دلایا بلکہ ساٹھ آدمیوں کا وفد لے کے مکے گیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پرآمادہ کیا۔ اس کے علاوہ یہ شاعر بھی تھا اپنے اشعار میں اسلام اور اہل اسلام کی توہین کرتا اور مسلم خواتین کے متعلق نازیبا اشعار کہتا تھا۔ ب۔ اس نے رسول ا للہ ﷺ کی دعوت کی اور پروگرام اس طرح طے پایا کہ جب آپ مکان میں تشریف فرماہوں تو اچانک آپ پرحملہ کرکے آپ کو شہید کردیا جائے لیکن حضرت جبرئیل ؑ نے آپ کو اس سے مطلع کردیا اور آپ کو اپنے پروں میں چھپا کر لے آئے تو واپس آکر آپ نے فرمایا: ”اب اس کی ایذارسانی انتہا کو پہنچ چکی ہے،اسے قتل کرنا چاہیے۔ “ چنانچہ اسے کیفر کردارتک پہنچادیا گیا۔ (فتح الباري: 421/7،422) 2۔ کعب بن اشرف یہودی کے قتل میں پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حصہ لیا: محمد بن مسلمہ، ابوعبس بن جبیر، حارث بن اوس، ابونائلہ اور عباد بن بشر رضوان اللہ عنھم اجمعین۔ خود رسول اللہ ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔ پھر اللہ کا نام لے کر انھیں روانہ کیا اور دعا فرمائی: ”اے اللہ!ان کی مدد فرما۔ “ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب اسے قتل کرکے واپس آئے تو بقیع کے پاس پہنچ کر انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر اس کا سرآپ کے آگے پھینک دیا۔ آپ نے اس کے قتل ہوجانے پر اللہ کا شکر اداکیا۔ (فتح الباري: 424/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4037