´عیدین میں اور مسلمانوں کے ساتھ دعا میں حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں`
«. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ فِي الْعِيدَيْنِ، فَقَدِمَتِ امْرَأَةٌ فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَحَدَّثَتْ عَنْ أُخْتِهَا، وَكَانَ زَوْجُ أُخْتِهَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشَرَةَ غَزْوَةً، وَكَانَتْ أُخْتِي مَعَهُ فِي سِتٍّ، قَالَتْ: كُنَّا نُدَاوِي الْكَلْمَى، وَنَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى، فَسَأَلَتْ أُخْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لَا تَخْرُجَ؟ قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا، وَلْتَشْهَد الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ سَأَلْتُهَا، أَسَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بِأَبِي نَعَمْ، وَكَانَتْ لَا تَذْكُرُهُ إِلَّا قَالَتْ: بِأَبِي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " يَخْرُجُ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ أَوِ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ، وَالْحُيَّضُ وَلْيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ، وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى "، قَالَتْ حَفْصَةُ: فَقُلْتُ: الْحُيَّضُ، فَقَالَتْ: أَلَيْسَ تَشْهَدُ عَرَفَةَ وَكَذَا وَكَذَا . . . .» ”. . . ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سختیانی سے، وہ حفصہ بنت سیرین سے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عیدگاہ جانے سے روکتی تھیں، پھر ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتریں اور انہوں نے اپنی بہن
(ام عطیہ) کے حوالہ سے بیان کیا، جن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ جنگوں میں گئی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی خبرگیری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ
(نماز عید کے لیے) باہر نہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اڑھا دے، پھر وہ خیر کے مواقع پر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں،
(یعنی عیدگاہ جائیں) پھر جب ام عطیہ رضی اللہ عنہا آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرا باپ آپ پر فدا ہو، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور فرماتیں کہ میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو۔
(انہوں نے کہا) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جوان لڑکیاں، پردہ والیاں اور حائضہ عورتیں بھی باہر نکلیں اور مواقع خیر میں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔ حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں . . .
“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ شُهُودِ الْحَائِضِ الْعِيدَيْنِ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّى:: 324]
تشریح: اجتماع عیدین میں عورتیں ضرور شریک ہوں: اجتماع عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کی اس قدر تاکید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں تک کے لیے تاکید فرمائی کہ وہ بھی اس ملی اجتماع میں شریک ہو کر دعاؤں میں حصہ لیں اور حالت حیض کی وجہ سے جائے نماز سے دور رہیں، ان مستورات کے لیے جن کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتماع سے پیچھے رہ جانے کی اجازت نہیں دی، بلکہ فرمایا کہ اس کی ساتھ والی دوسری عورتوں کو چاہئیے کہ اس کے لیے اوڑھنی کا انتظام کر دیں۔ روایت مذکورہ میں یہاں تک تفصیل موجود ہے کہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے تعجب کے ساتھ ام عطیہ سے کہا کہ حیض والی عورتیں کس طرح نکلیں گی جب کہ وہ نجاست حیض میں ہیں۔ اس پر ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حیض والی عورتیں حج کے دنوں میں آخر عرفات میں ٹھہرتی ہیں، مزدلفہ میں رہتی ہیں، منیٰ میں کنکریاں مارتی ہیں، یہ سب مقدس مقامات ہیں، جس طرح وہ وہاں جاتی ہیں اسی طرح عیدگاہ بھی جائیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی واضح احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جن سب کا ذکر موجب تطویل ہو گا۔ مگر تعجب ہے فقہائے احناف پر جنہوں نے اپنے فرضی شکوک و اوہام کی بنا پر صراحتاً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔
مناسب ہو گا کہ فقہائے احناف کا فتویٰ صاحب ایضاح البخاری کے لفظوں میں پیش کر دیا جائے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
”اب عیدگاہ کا حکم بدل گیا ہے پہلے عیدگاہ مسجدکی شکل میں نہ ہوتی تھی، اس لیے حائضہ اور جنبی کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی، اب عیدگاہیں مکمل مسجد کی صورت میں ہوتی ہیں، اس لیے ان کا حکم بعینہ مسجد کا حکم ہے۔ اسی طرح دور حاضر میں عورتوں کو عیدگاہ کی نماز میں شرکت سے بھی روکا گیا ہے۔ صدر اول میں اول تو اتنا اندیشہ فتنہ و فساد کا نہیں تھا، دوسرے یہ کہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھا، مرد و عورت سب مل کر عیدکی نماز میں شرکت کریں۔ اب فتنہ کا بھی زیادہ اندیشہ ہے اور اظہا رشان و شوکت کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے روکا جائے گا۔ متاخرین کا یہی فیصلہ ہے۔ الی آخرہ [ايضاح البخاري، جز11، ص: 129]
منصف مزاج ناظرین اندازہ فرما سکیں گے کہ کس جرات کے ساتھ احادیث صحیحہ کے خلاف فتویٰ دیا جا رہا ہے، جس کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ اگر عیدگاہ کھلے میدان میں ہو اور اس کی تعمیر مسجد جیسی نہ ہو اور پر دے کا انتظام اتنا بہتر کر دیا جائے کہ فتنہ و فساد کا مطلق کوئی خوف نہ ہو اور اس اجتماع مرد وزن سے اسلام کی شان و شوکت بھی مقصود ہو تو پھر عورتوں کا عید کے اجتماع میں شرکت کرنا جائز ہو گا۔ الحمد للہ کہ جماعت اہل حدیث کے ہاں اکثر یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ وہ بیشتر کھلے میدانوں میں عمدہ انتظامات کے ساتھ مع اپنے اہل و عیال عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور اسلامی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی عیدگاہوں میں کبھی فتنہ و فساد کا نام تک بھی نہیں آیا۔ برخلاف اس کے ہمارے بہت سے بھائیوں کی عورتیں میلوں عرسوں میں بلاحجاب شریک ہوتی ہیں اور وہاں نت نئے فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے محترم فقہائے عظام وہاں عورتوں کی شرکت پر اس قدر غیظ و غضب کا اظہار کبھی نہیں فرماتے جس قدر اجتماع عیدین میں مستورات کی شرکت پر ان کی فقاہت کی باریکیاں مخالفانہ منظرعام پر آ جاتی ہیں۔
پھر یہ بھی تو غور طلب چیز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ مستورات، اصحاب کرام، انصار و مہاجرین کی مستورات درجہ شرافت میں جملہ مستورات امت سے افضل ہیں، پھر بھی وہ شریک عیدین ہوا کرتی تھیں جیسا کہ خود فقہائے احناف کو تسلیم ہے۔ ہماری مستورات تو بہرحال ان سے کمتر ہیں وہ اگر باپردہ شریک ہوں گی تو کیوں کر فتنہ و فساد کی آگ بھڑکنے لگے گی یا ان کی عزت و آبرو پر کون سا حرف آ جائے گا۔ کیا وہ قرن اوّل کی صحابیات سے بھی زیادہ عزت رکھتی ہیں؟ باقی رہا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد:
«لوراي رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم مااحدث النساءالخ» کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کے نوپیدا حالات کو دیکھتے تو ان کو عیدگاہ سے منع کر دیتے۔ یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے ہے جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر تھی، اور ظاہر ہے کہ ان کی اس رائے سے حدیث نبوی کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ بیان لفظ
«لو» (اگر) کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ کہ ارشاد نبوی آج بھی اپنی حالت پر واجب العمل ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں پردہ کے ساتھ عورتوں کا شریک ہونا سنت ہے۔
«وبالله التوفيق»