الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3540
3540. حضرت جعید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چورانوے(94)سال کی عمر میں دیکھا جبکہ وہ اچھے خاصے طاقتور اور معتدل حالت میں تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ میرے حواس، کان اور آنکھ اب تک کام کر رہے ہیں۔ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میری خالہ مجھے ایک مرتبہ آپ ﷺ کی خدمت میں لے گئیں، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میرا بھانجا بیمار ہے، آپ اس کے لیے اللہ سے دعا کریں تو نبی ﷺ نے میرے لیے دعا فرمائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3540]
حدیث حاشیہ:
یہ باب بلاعنوان ہے جو پہلے باب کا تکملہ ہے کیونکہ جن الفاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا جاتاتھا وہ یامحمد،یاابوالقاسم اور یارسول اللہ تھے۔
لیکن ادب کاتقاضا ہے کہ آپ کو”رسول اللہ“ (صلی اللہ علیہ وسلم)
سے یاد کیا جائے،چنانچہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ نے آپ کو یارسول اللہ! اسے پکارا تھا۔
مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اگر آپ کی توجہ مبذول کرانامقصد ہوتا تویارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کہا جاتاتھا،آپ کو عام طور پر نام یا کنیت سے نہیں پکارا جاتا تھا۔
یہ بھی مقصد بیان کیاجاتا ہے کہ حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بچے کا نام نہیں لیا بلکہ اسے ابن اختی کہہ کر پیش کیاتو ثابت ہواکہ کنائے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کنیت باپ اور بیٹا دونوں طرح سےمستعمل ہے،اس عنوان کو علیحدہ بیان کرنے کا یہی مقصد معلوم ہوتاہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کو مبہم رکھا ہے تاکہ قاری غوروفکر اور مغز ماری کرکے خود اس کا عنوان تجویز کرے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3540