حدثنا إسماعيل، قال: حدثني اخي، عن سليمان بن بلال، عن يحيى بن سعيد، قال: اخبرني حفص بن عبيد الله بن انس بن مالك، انه سمع جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، يقول:" كان المسجد مسقوفا على جذوع من نخل فكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خطب يقوم إلى جذع منها، فلما صنع له المنبر وكان عليه فسمعنا لذلك الجذع صوتا كصوت العشار حتى جاء النبي صلى الله عليه وسلم، فوضع يده عليها فسكنت".حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" كَانَ الْمَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَخْلٍ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ مِنْهَا، فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ وَكَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذَلِكَ الْجِذْعِ صَوْتًا كَصَوْتِ الْعِشَارِ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہیں حفص بن عبیداللہ بن انس بن مالک نے خبر دی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف لائے۔ پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اونٹنی کی آواز ہوتی ہے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قریب آ کر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہوا۔
Narrated Anas bin Malik: That he heard Jabir bin `Abdullah saying, "The roof of the Mosque was built over trunks of datepalms working as pillars. When the Prophet delivered a sermon, he used to stand by one of those trunks till the pulpit was made for him, and he used it instead. Then we heard the trunk sending a sound like of a pregnant she-camel till the Prophet came to it, and put his hand over it, then it became quiet."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 785
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3585
3585. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ مسج کی چھت کھجور کے تنوں سے بنائی گئی تھی۔ نبی کریم ﷺ (جب خطبہ دیتے تو) کھجور کے ایک تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ جب آپ ﷺ کے لیے منبرتیار ہوگیا اور آپ ﷺ اس پر تشریف لے گئے تو ہم نے کھجور کے اس تنے کے رونے کی آوازسنی، جیسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی آواز نکالتی ہے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دست شفقت رکھا تو وہ خاموش ہوگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3585]
حدیث حاشیہ: صحابہ نے یہ آواز سنی، دوسری روایت میں ہے، آپ نے آکر اس کو گلے لگا لیا اور وہ لکڑی خاموش ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: اگر میں ایسا نہ کرتا تو وہ قیامت تک روتی رہتی۔ امام حسن بصری ؒ جب اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے مسلمانو! ایک لکڑی آنحضرت ﷺ سے ملنے کے شوق میں روئی اور تم لکڑی کے برابر بھی آپ سے ملنے کا شوق نہیں رکھتے۔ دارمی کی روایت میں ہے کہ آپ نے حکم دیا کہ ایک گڑھا کھودا گیا اور وہ لکڑی اس میں دبادی گئی۔ ابونعیم کی روایت میں ہے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم کو اس لکڑی کے رونے پر تعجب نہیں آتا۔ وہ آئے، اس کا رونا سنا، خود بھی بہت روئے، مسلمانو! ایک لکڑی کو آنحضرت ﷺ سے ایسی محبت ہو اور ہم لوگ جو اشرف المخلوقات ہیں اپنے پیغمبر سے اتنی بھی الفت نہ رکھیں۔ رونے کا مقام ہے کہ آپ کی حدیث کو چھوڑ کر ابوحنیفہ اور شافعی کے قول کی طرف دوڑیں، آپ کی حدیث سے توہم کو تسلی نہ ہو اور قہستانی اور کیدانی جو نامعلوم کس باغ کی مولی تھے ان کے قول سے تشفی ہوجائے۔ لاحول ولا قوة إلا باللہ۔ پھر اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہو جب پیغمبر اسلام کی تم کو ذرا بھی محبت نہیں۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3585
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3585
3585. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ مسج کی چھت کھجور کے تنوں سے بنائی گئی تھی۔ نبی کریم ﷺ (جب خطبہ دیتے تو) کھجور کے ایک تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ جب آپ ﷺ کے لیے منبرتیار ہوگیا اور آپ ﷺ اس پر تشریف لے گئے تو ہم نے کھجور کے اس تنے کے رونے کی آوازسنی، جیسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی آواز نکالتی ہے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دست شفقت رکھا تو وہ خاموش ہوگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3585]
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہمار ے رسول اللہ ﷺ کو ایسے معجزات عطا فرمائے ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دیے تھے حضرت عیسیٰ ؑ اگرچہ مردوں کو زندہ کرتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ معجزہ ان سے بڑھ کر ہے کیونکہ خشک تنے میں تو کبھی زندگی کے آثار تھے ہی نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایک خشک تنے میں جذب و اشتیاق کا جذبہ پیدا کردیا تو صحابہ کرام ؓ کے کیا ہی کہنے ہیں۔ انھوں نے آپ کی وفات پر جس صبر کا مظاہرہ کیا وہ قابل رشک ہے۔ 2۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ اس تنے کو زمین میں دفن کردیا گیا تھا جبکہ ایک روایت میں ہے کہ جب مسجد منہدم ہوئی تو اسے حضرت ابی ابن کعب ؓ نے اپنے قبضے میں کر لیا۔ (سنن الدارمي، باب ماأکرم النبي صلی اللہ علیه وسلم بحنین المنیر، حدیث: 36) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے دفن کرادیا تھا لیکن جب مسجد کو گراکر دوبارہ تعمیر کا پرو گرام بنا تو کھدائی کے دوران میں وہ ظاہر ہو گیا اس وقت حضرت ابی بن کعب نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ (فتح الباري: 737/6) 3۔ حدیث 3584۔ کے آخر میں تنےکے رونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے یہ راوی کا قول ہے یا رسول اللہ ﷺ کا فرماہے؟ راجح بات یہ ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ نے وجہ بیان فرمائی ہے جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں صراحت ہے۔ (دیکھیے مسند أحمد: 300/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3585