مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم نے حفص بن غیاث سے سنا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ خیبر کی فتح کے بعد ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت میں) ہمارا بھی حصہ لگایا۔ آپ نے ہمارے سوا کسی بھی ایسے شخص کا حصہ مال غنیمت میں نہیں لگایا جو فتح کے وقت (اسلامی لشکر کے ساتھ) موجود نہ رہا ہو۔
Narrated Abu Musa: We came upon the Prophet after he had conquered Khaibar. He then gave us a share (from the booty), but apart from us he did not give to anybody else who did not attend the Conquest.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 540
بعثنا هاهنا وأمرنا بالإقامة فأقيموا معنا وافقنا النبي حين افتتح خيبر فأسهم لنا منها وما قسم لأحد غاب عن فتح خيبر منها شيئا إلا لمن شهد معه إلا أصحاب سفينتنا مع جعفر وأصحابه قسم لهم معهم
بعثنا هاهنا وأمرنا بالإقامة فأقيموا معنا وافقنا رسول الله حين افتتح خيبر فأسهم لنا منها وما قسم لأحد غاب عن فتح خيبر منها شيئا إلا لمن شهد معه إلا لأصحاب سفينتنا مع جعفر وأصحابه قسم لهم معهم ليس بأحق بي منكم وله ولأصحابه هجرة واحدة ولكم أنتم أهل السفينة ه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1559
´مال غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ذمیوں کے حصہ کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر آیا، جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھا آپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقرر کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1559]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اور فتح حاصل ہونے کے بعد جو پہنچے اسے بھی حصہ دیاجائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1559
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2725
´جو شخص مال غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (حبشہ سے) آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح خیبر کے موقع پر ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت سے) ہمارے لیے حصہ لگایا، یا ہمیں اس میں سے دیا، اور جو فتح خیبر میں موجود نہیں تھے انہیں کچھ بھی نہیں دیا سوائے ان کے جو آپ کے ساتھ حاضر اور خیبر کی فتح میں شریک تھے، البتہ ہماری کشتی والوں کو یعنی جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان سب کے ساتھ حصہ دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2725]
فوائد ومسائل: یہ عطیہ تو خمس میں سے دیا گیا تھا۔ جس کے نبی کریمﷺ خود متصرف تھے۔ یا دیگر مجاہدین کی رضا مندی سے غنیمت میں دیا گیا تھا تاکہ ان مہاجرین کی دلجوئی ہو۔ واللہ اعلم (خطابی)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2725
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4233
4233. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں فتح خیبر کے بعد حاضر ہوئے۔ آپ نے ہمارے لیے مال غنیمت میں حصہ مقرر کیا اور ہمارے علاوہ جو شخص فتح خیبر میں حاضر نہیں ہوا اسے حصہ نہیں دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4233]
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی فتح خیبرمیں غائب تھا اس کے لیے اموال خیبر سے حصہ مقرر نہ کیا، صرف ان لوگوں کو حصہ میسر ہوا جو خیبر میں موجود تھے، البتہ اہل سفینہ، حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں سمیت سب کے لیے غنائم خیبر سے حصہ مقرر کیا۔ (فتح الباري: 608/7۔ ) اہل سفینہ سے مراد حضرت ابوموسیٰ ؓ اوران کے ساتھی ہیں۔ انھیں اموال خیبر سے حصہ ملا تھا، ان کے علاوہ حضرت ابوہریرہ ؓ کوحصہ دیا تھا جیسا کہ آئندہ روایت میں اس کی صراحت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4233