40. باب: آیت کی تفسیر ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور پھر وہ اپنی مدت کو پہنچ چکیں تو تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے پھر نکاح کر لیں“۔
(40) Chapter. “And when you have divorced women and they have fulfilled the term of their prescribed period, do not prevent them from marrying their (former) husbands...” (V.2:232)
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میری ایک بہن تھیں۔ ان کو ان کے اگلے خاوند نے نکاح کا پیغام دیا۔ (دوسری سند) اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ (تیسری سند) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا اور ان سے امام حسن بصری نے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی لیکن جب عدت گزر گئی اور طلاق بائن ہو گئی تو انہوں نے پھر ان کے لیے پیغام نکاح بھیجا۔ معقل رضی اللہ عنہ نے اس پر انکار کیا، مگر عورت چاہتی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی «فلا تعضلوهن أن ينكحن أزواجهن» کہ ”تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کریں۔“
Narrated Al-Hasan: The sister of Ma'qal bin Yasar was divorced by her husband who left her till she had fulfilled her term of 'Iddat (i.e. the period which should elapse before she can Remarry) and then he wanted to remarry her but Maqal refused, so this Verse was revealed:-- "Do not prevent them from marrying their (former) husbands." (2.232)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 52
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4529
حدیث حاشیہ: یعنی عورتیں اگراپنے اگلے خاوند سے نکاح کرنا چاہیں تو ان کو مت روکو۔ آیت میں مخاطب عورتوں کے اولیاء ہیں۔ ابراہیم بن طہمان کی روایت کو خود امام بخاری نے کتاب النکاح میں وصل کیا ہے۔ وہیں معقل ؓ کی بہن اور اس کے خاوند کا نام بھی مذکورہے۔ حکم مذکور طلاق رجعی کے لیے ہے اور طلاق بائن کے لیے بھی جبکہ شرعی حلالہ کے بعد عورت پہلے خاوند سے نکاح کرنا چاہے تو اسے روکنا نہ چاہیے، اور خود حلالہ کرنے کرانے والوں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4529
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4529
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر حدیث مختصر طور پر بیان کی ہے دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ جب عدت ختم ہوگئی تو اس کے بہنوئی نے اس کی بہن سے نکاح کے لیے مجھے پیغام بھیجا میں نے غصے اور غیرت کی وجہ سے اسے جواب دیا کہ میں نے اپنی بہن سے تیرا نکاح کر کے تیری عزت افزائی کی لیکن تونے اس کی کوئی قدر نہ کی، اللہ کی قسم! میری بہن اب تیرے پاس کسی صورت نہیں آئے گی۔ وہ آدمی معقول اور نیک سیرت تھا اور میری بہن کا رجحان بھی اس کے گھر آباد ہونے کا تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں ابھی تعمیل حکم کرتا ہوں چنانچہ اس نے اپنی بہن کا نکاح اس سے کردیا۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5130) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور آیات پڑھ کر سائیں تو اس نے ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ دی اور اللہ کے حکم کےسامنے اپنی گردن کو جھکا دیا۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5331) 2۔ ایک روایت میں ہے کہ آیت کے نزول کے بعد معقل ؓ نے انھیں بلا کر کہا: (اُزَوَّجُكَ وَاُكرِمُكَ) ”اب میں تجھے نکاح بھی کر کے دیتا ہوں اور تمھاری تکریم بھی کرتا ہوں۔ “(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 2981) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سر پرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو تا، چنانچہ معقل ؓ کو اگر نکاح کرانے کا اختیار نہ ہوتا تو اسے کیوں کہا جاتا کہ وہ نکاح کرنے سے نہ روکے علاہ ازیں اگر عورت از خود نکاح کرنے کی مجاز ہوتی تو وہ اپنے بھائی کی قطعاً محتاج نہ ہوتی اس کے باوجود ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضا کو ولی کی رضا پر مقدم رکھا ہے تاہم کسی بالغ لڑکی کو یہ حق حاصل نہیں کہ بھاگ کر یا چھپ کراپنا نکاح خود کرے، ہاں اگر قریبی اور حقیقی ولی ظالم اور بدکردار ہو تو دور والا ولی یا عدالت نکاح کرائے گی۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4529