2. بَابُ: {تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ} ، {قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں اللہ نے تمہارے لیے قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے“۔
(2) Chapter. “...seeking to please your wives...” (V.66:1) “Allah has already ordained for you (O men), the dissolution of your oaths..." (V.66:2)
Narrated Ibn `Abbas: For the whole year I had the desire to ask `Umar bin Al-Khattab regarding the explanation of a Verse (in Surat Al-Tahrim) but I could not ask him because I respected him very much. When he went to perform the Hajj, I too went along with him. On our return, while we were still on the way home. `Umar went aside to answer the call of nature by the Arak trees. I waited till he finished and then I proceeded with him and asked him. "O chief of the Believers! Who were the two wives of the Prophet who aided one another against him?" He said, "They were Hafsa and `Aisha." Then I said to him, "By Allah, I wanted to ask you about this a year ago, but I could not do so owing to my respect for you." `Umar said, "Do not refrain from asking me. If you think that I have knowledge (about a certain matter), ask me; and if I know (something about it), I will tell you." Then `Umar added, "By Allah, in the Pre-lslamic Period of Ignorance we did not pay attention to women until Allah revealed regarding them what He revealed regarding them and assigned for them what He has assigned. Once while I was thinking over a certain matter, my wife said, "I recommend that you do so-and-so." I said to her, "What have you got to do with the is matter? Why do you poke your nose in a matter which I want to see fulfilled.?" She said, How strange you are, O son of Al-Khattab! You don't want to be argued with whereas your daughter, Hafsa surely, argues with Allah's Messenger so much that he remains angry for a full day!" `Umar then reported; how he at once put on his outer garment and went to Hafsa and said to her, "O my daughter! Do you argue with Allah's Messenger so that he remains angry the whole day?" H. afsa said, "By Allah, we argue with him." `Umar said, "Know that I warn you of Allah's punishment and the anger of Allah's Messenger . . . O my daughter! Don't be betrayed by the one who is proud of her beauty because of the love of Allah's Messenger for her (i.e. `Aisha)." `Umar addled, "Then I went out to Um Salama's house who was one of my relatives, and I talked to her. She said, O son of Al-Khattab! It is rather astonishing that you interfere in everything; you even want to interfere between Allah's Apostle and his wives!' By Allah, by her talk she influenced me so much that I lost some of my anger. I left her (and went home). At that time I had a friend from the Ansar who used to bring news (from the Prophet) in case of my absence, and I used to bring him the news if he was absent. In those days we were afraid of one of the kings of Ghassan tribe. We heard that he intended to move and attack us, so fear filled our hearts because of that. (One day) my Ansari friend unexpectedly knocked at my door, and said, "Open Open!' I said, 'Has the king of Ghassan come?' He said, 'No, but something worse; Allah's Messenger has isolated himself from his wives.' I said, 'Let the nose of `Aisha and Hafsa be stuck to dust (i.e. humiliated)!' Then I put on my clothes and went to Allah's Messenger 's residence, and behold, he was staying in an upper room of his to which he ascended by a ladder, and a black slave of Allah's Messenger was (sitting) on the first step. I said to him, 'Say (to the Prophet ) `Umar bin Al-Khattab is here.' Then the Prophet admitted me and I narrated the story to Allah's Messenger . When I reached the story of Um Salama, Allah's Messenger smiled while he was lying on a mat made of palm tree leaves with nothing between him and the mat. Underneath his head there was a leather pillow stuffed with palm fibres, and leaves of a saut tree were piled at his feet, and above his head hung a few water skins. On seeing the marks of the mat imprinted on his side, I wept. He said.' 'Why are you weeping?' I replied, "O Allah's Messenger ! Caesar and Khosrau are leading the life (i.e. Luxurious life) while you, Allah's Messenger though you are, is living in destitute". The Prophet then replied. 'Won't you be satisfied that they enjoy this world and we the Hereafter?' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 435
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4153
´آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے، چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے، اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا، کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے، اور ایک مشک لٹک رہی تھی، میری آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن خطاب: تم کیوں رو رہے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں، اس چٹائی سے آ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4153]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے دنیا کا مال جمع نہیں کیا بلکہ زہد اختیار فرمایا۔
(2)
گھر میں ایک دو دقت کی خوراک موجود ہونا زہد کے منافی نہیں۔
(3)
بے تکلف ساتھیوں میں صرف تہ بند پہن کریعنی قمیص پہنے بغیر بیٹھنا جائز ہے۔
(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے شدید محبت رکھتے تھے۔
(5)
کافروں کو ان کی نیکیوں کا معاوضہ دنیا ہی میں دنیوی سامان یا عیش و عشرت کی صورت میں مل جاتا ہے۔
(6)
مسلمان پر دنیوی تنگ دستی آخرت میں درجات کی بلندی کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4153
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4913
4913. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک آیت کے متعلق حضرت عمر ؓ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک ٹھہرا رہا لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر وہ ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ واپسی کے وقت جب ہم راستے میں تھے تو آپ رفع حاجت کے لیے ایک پیلو کے درخت کے پاس گئے۔ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا۔ جب آپ فارغ ہو کر آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ چلا۔ اس وقت میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! امہات المومنین میں سے وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی ﷺ کے متعلق ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ وہ سیدہ حفصہ اور حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے یہ سوال کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا، لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4913]
حدیث حاشیہ:
روایت میں ضمنی طور پر بہت سی باتیں ذکر میں آگئی ہیں، خاص طور پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فاروقی جلال کا بیان بڑے اونچے لفظوں میں بیان فرمایا ہے اس پر مولانا وحیدالزماں مرحوم کا نوٹ درج ذیل ہے۔
ہیبت حق ست ایں از خلق نیست ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست ”حضرت عمر کا جاہ و جلال ایسا ہی تھا یہ اللہ کی طرف سے تھا اتنا سخت ترین رعب کہ موافق مخالف سب تھراتے رہتے تھے۔
مقابلہ تو کیا چیز ہے مقابلہ کے خیال کی بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی۔
“ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ دس بارہ سال اورزندہ رہتے تو ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام نظر آتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مخالفین جو شیعہ اور روافض ہیں وہ بھی آپ کے حسن انتظام اور خوبی سیاست اور جلال اور دبدبہ کے معترف ہیں۔
ایک مجلس میں چند رافضی بیٹھے ہوئے جناب عمر کی شان میں کچھ بے ادبی کی باتیں کر رہے تھے، انہیں میں سے ایک باانصاف شخص نے کہا کہ حضرت عمر کو انتقال کئے ہوئے آج تیرہ سو برس گزر چکے ہیں اب تم ان کی برائی کرتے ہو بھلا سچ کہنا اگر حضرت عمر ایک تلوار کاندھے پر رکھے ہوئے اس وقت تمہارے سامنے آ جائیں تو تم ایسی باتیں کر سکو گے۔
انہوں نے اقرار کیا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سامنے آ جائیں تو ہمارے منہ سے بات نہ نکلے۔
اس موقع پر حضرت عمر کا بیان دوسری روایت میں یوں ہے جب میں آپ کے پاس پہنچا دیکھا تو آپ کے چہرے پر ملال معلوم ہوتا تھا میں نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں گویا آپ کا دل بہلایا پھر ذکر کرتے کرتے میں نے کہا یا رسول اللہ! میری جورو اگر مجھ سے بڑھ بڑھ کر کچھ مانگے تو میں اس کی گردن ہی توڑ ڈالوں، اس پر آپ ہنس دیئے آپ کا رنج جاتا رہا۔
سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دانائی اور لیاقت اور علم مجلسی پر آفریں۔
مسلمانو! دیکھو پیغمبر کا عشق اس کو کہتے ہیں۔
پیغمبر صاحب کا رنج صحابہ کو ذرا بھی گوارا نہیں تھا۔
اپنی بیٹیوں کو ٹھونکنے اور تنبیہ کرنے پر مستعد تھے۔
افسوس ہے کہ ایسے بزرگان دین عاشقان رسول پر ہم تہمتیں باندھیں اور اس زمانہ کے بد معاش منافق لوگوں پر قیاس کرکے ان کی برائی کریں۔
یہ شیطان ہے جو تم کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور بزرگان دین نثار ان سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تم کو بدگمان بناتا ہے توبہ کرو توبہ لا حولَ وَ لَا قُوةَ إلا باللہَ (وحیدی)
روایت میں سلم کے پتوں کا ذکر ہے۔
سلم قرظ کو کہتے ہیں جس کے پتوں سے چمڑا صاف کرتے ہیں غالباً کیکر کا درخت ہے جس کی چھال سے چمڑہ رنگا جاتا ہے۔
اس موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے سرو سامانی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اظہار ملال بھی بجا تھا۔
ہائے بادشاہ کونین نے دنیا میں زندگی بے سر و سامانی اور تکلیف کے ساتھ بسر کی۔
مسلمانو! ہمارے سردارنے دنیا اس طرح کاٹی توہم کیوں اپنی بے سر و سامانی اور مفلسی پر رنج کریں اور دنیا کے بے حقیقت اور فانی مال ومتاع کے لئے ان دنیا دار کتوں سے کیوں ڈریں۔
یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں ایک بوریا اور ایک پانی کا کوزہ ہم کو کہیں بھی مل جائے گا۔
کوئی ہم کو ڈراتا ہے دیکھوشرع کی سچی بات کہو گے تو نوکری چھن جائے گی کوئی کہتا ہے شہر سے نکالے جاؤ گے۔
ارے بے وقوفو! شہر سے نکالیں گے پر زمین سے نہیں نکال سکتے۔
ساری زمین میں کہیں بھی رہ جائیں گے نوکری چھین لیں گے تو چھین لیں ہم تجارت اور محنت کرکے اپنی روٹی کمالیں گے۔
پروردگار رازق مطلق ہے وہ جب تک زندگی ہے کسی بہانے سے روٹی دے گا۔
تم لاکھ ڈراؤ ہم ڈرانے والے نہیں ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔
﴿و عَلی اللہِ فَلیَتَوَکلِ المُومِنُونَ﴾ (وحیدی)
حضرت حفصہ جن کا روایت میں ذکر ہے حضرت عمر بن خطاب کی صاحبزادی ہیں، ان کی والدہ زینب ہیں جو مظعون کی بیٹی ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہ حضرت خنیس بن حذافہ سہمی کے نکاح میں تھیں اور حضرت خنیس کے ہمراہ ہجرت کر گئی تھی، غزوہ بدر کے بعد حضرت خنیس کا انتقال ہو گیا۔
پھر حضرت عمر نے ان کا نکاح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔
یہ 3ھ کا واقعہ ہے۔
ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک طلاق دے دی تھی لیکن اللہ پاک نے آپ پر وحی سے اطلاع کر دی کہ حفصہ سے رجوع کر لو کیونکہ وہ بہت روزہ رکھتی ہیں، رات کو عبادت کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ رہیں گی۔
چنانچہ آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کر لیا۔
ان کی وفات شعبان45ھ میں بعمر60 سال ہوئی۔
رضي اللہ عنها و أرضاھا (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4913
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4913
4913. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک آیت کے متعلق حضرت عمر ؓ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک ٹھہرا رہا لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر وہ ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ واپسی کے وقت جب ہم راستے میں تھے تو آپ رفع حاجت کے لیے ایک پیلو کے درخت کے پاس گئے۔ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا۔ جب آپ فارغ ہو کر آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ چلا۔ اس وقت میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! امہات المومنین میں سے وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی ﷺ کے متعلق ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ وہ سیدہ حفصہ اور حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے یہ سوال کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا، لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4913]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم مزاج اور حوصلہ مند تھے۔
آپ معمولی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے لیکن ازواج مطہرات سےناراضی اس بات کی دلیل تھی کہ یقیناً یہ بات قابل برداشت نہیں ہے۔
ان دونوں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کا رویہ واقعی ایسا ہی قابل اعتراض تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو جانے اور بالا خانہ میں خلوت نشین ہونے پر حق بجانب تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات پر حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو ان کے رویے پر شدت کےساتھ تنبیہ فرمائے۔
2۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس معاملے میں صرف حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا قصور نہیں تھا بلکہ دوسری ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی کچھ نہ کچھ اس میں حصے دارتھیں۔
یہی وجہ ہے کہ آئندہ آیات میں تمام ازواج مطہرات کو تنبیہ کی گئی ہے۔
اور یہ بات بھی تاریخ پر ثبت ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں:
ایک میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جبکہ دوسری پارٹی میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور باقی ازواج رضوان اللہ عنھن اجمعین شامل تھیں۔
حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ ایک دفعہ تمام ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غیرت کا رعب جمانے کے لیے باہمی اتفاق کرلیا تھا جو عورتوں کی طبیعت کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4916)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4913