6. بَابُ قَتْلِ الْخَوَارِجِ وَالْمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ:
6. باب: خارجیوں اور بے دینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا۔
(6) Chapter. Killing Al-Khawarij (some people who dissented from the religion and disagreed with the rest of Muslims), and Al-Mullhidun (heretical) after the establishment of firm proof against them.
Narrated `Abdullah bin `Amr bin Yasar: That they visited Abu Sa`id Al-Khudri and asked him about Al-Harauriyya, a special unorthodox religious sect, "Did you hear the Prophet saying anything about them?" Abu Sa`id said, "I do not know what Al-Harauriyya is, but I heard the Prophet saying, "There will appear in this nation---- he did not say: From this nation ---- a group of people so pious apparently that you will consider your prayers inferior to their prayers, but they will recite the Qur'an, the teachings of which will not go beyond their throats and will go out of their religion as an arrow darts through the game, whereupon the archer may look at his arrow, its Nasl at its Risaf and its Fuqa to see whether it is blood-stained or not (i.e. they will have not even a trace of Islam in them).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 65
● صحيح البخاري | 4351 | سعد بن مالك | ألا تأمنوني وأنا أمين من في السماء يأتيني خبر السماء صباحا ومساء قال فقام رجل غائر العينين مشرف الوجنتين ناشز الجبهة كث اللحية محلوق الرأس مشمر الإزار فقال يا رسول الله اتق الله قال ويلك أولست أحق أهل الأرض أن يتقي الله قال ثم ولى الرجل قال خالد بن |
● صحيح البخاري | 3610 | سعد بن مالك | ومن يعدل إذا لم أعدل قد خبت وخسرت إن لم أكن أعدل فقال عمر يا رسول الله ائذن لي فيه فأضرب عنقه فقال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم وصيامه مع صيامهم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر إلى نصله |
● صحيح البخاري | 6931 | سعد بن مالك | يخرج في هذه الأمة ولم يقل منها قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم يقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم أو حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شيء |
● صحيح البخاري | 6933 | سعد بن مالك | يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية |
● صحيح البخاري | 5058 | سعد بن مالك | يخرج فيكم قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم وصيامكم مع صيامهم وعملكم مع عملهم ويقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر في النصل فلا يرى شيئا وينظر في القدح فلا يرى شيئا وينظر في الريش فلا يرى شيئا ويتمارى في الفوق |
● صحيح البخاري | 7432 | سعد بن مالك | من يطيع الله إذا عصيته فيأمنني على أهل الأرض ولا تأمنوني فسأل رجل من القوم قتله أراه خالد بن الوليد فمنعه النبي فلما ولى قال النبي إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من |
● صحيح البخاري | 6163 | سعد بن مالك | يمرقون من الدين كمروق السهم من الرمية |
● صحيح البخاري | 7562 | سعد بن مالك | يخرج ناس من قبل المشرق ويقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ثم لا يعودون فيه حتى يعود السهم إلى فوقه قيل ما سيماهم قال سيماهم التحليق أو قال التسبيد |
● صحيح البخاري | 4667 | سعد بن مالك | يخرج من ضئضئ هذا قوم يمرقون من الدين |
● صحيح مسلم | 2455 | سعد بن مالك | يخرج في هذه الأمة ولم يقل منها قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم فيقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم أو حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شيء |
● صحيح مسلم | 2451 | سعد بن مالك | يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية |
● صحيح مسلم | 2457 | سعد بن مالك | هم شر الخلق أو من أشر الخلق يقتلهم أدنى الطائفتين إلى الحق |
● صحيح مسلم | 2452 | سعد بن مالك | يتلون كتاب الله رطبا لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية |
● صحيح مسلم | 2456 | سعد بن مالك | يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية |
● سنن أبي داود | 4764 | سعد بن مالك | من يطيع الله إذا عصيته أيأمنني الله على أهل الأرض ولا تأمنوني قال فسأل رجل قتله أحسبه خالد بن الوليد قال فمنعه قال فلما ولى قال إن من ضئضئ هذا أو في عقب هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدع |
● سنن النسائى الصغرى | 4106 | سعد بن مالك | من ضئضئ هذا قوما يخرجون يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان لئن أنا أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد |
● سنن النسائى الصغرى | 2579 | سعد بن مالك | من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد |
● سنن ابن ماجه | 169 | سعد بن مالك | يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية |
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7432
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں“`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ . . .»
”. . . ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی خالد رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7432]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7432 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ}:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا بظاہر باب سے مناسبت دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تحت الباب نہ تو فرشتوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کا اوپر چڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی روایت کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، و مناسبة للترجمة من جهة أنه ورد فى بعض روايات هذا الحديث: ألا تأمنوني و أنا أمين من فى السماء فجرى البخاري على عادته المعروفة من الإشارة إلى الرواية التى لم يوردها لإرادة تشحيذ أذهان الطلبة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 271/5]
”حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی باب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث کے یہ الفاظ وارد ہیں: ”میں اس اللہ کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے“، پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ تشحیذ کا سامان پیدا ہو جائے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بعض لوگوں نے مناسبت دینے کے لیے تکلف کیا ہے کہ کتاب المغازی میں یہ روایت ہے کہ «و أنا أمين من فى السماء» ۔“ [عمدة القاري للعيني: 181/25]
لہٰذا ان تصریحات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے اجاگر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «و أنا أمين» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پس انہی الفاظوں کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 320
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث169
´خوارج کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حروریہ ۱؎ (خوارج) کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو بڑی عبادت گزار ہو گی، اس کی نماز کے مقابلہ میں تم میں سے ہر ایک شخص اپنی نماز کو کمتر اور حقیر سمجھے گا ۲؎، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اپنا تیر لے کر اس کا پھل دیکھتا ہے، تو اسے (خون وغیرہ) کچھ بھی نظر نہیں آتا، پھر اس کے پھل کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 169]
اردو حاشہ:
(1)
خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔
لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
(2)
اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
نَصْل (پھل)
تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔
رِصَاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔
قَدْح:
تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔
قُذَذ:
اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔
اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔
اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔
(3)
اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 169
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4764
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار لوگوں: اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کر دیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں“ اتنے میں ایک شخص آیا (جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4764]
فوائد ومسائل:
رسول ؐ انتہائی حلیم ومتحمل مزاج تھے اور بے ادب وگستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر کر جاتے تھے۔
چنانچہ حکام، قضاہ اور اصحاب منصب کو بھی چاہیے کہ پہلے جاہلوں کی اصلاح کی کوشش کریں، اگر وہ اعلانیہ فساد پھیلانے لگیں تو ان کا قلع قمع کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4764
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6931
6931. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور عطاء بن یسار سے روایت ہے وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس آئے اور ان سے حرویہ (خوارج) کے متعلق سوال کیا کہ تم نے ان سے متعلق نبی ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: حروریہ کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔ البتہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اس امت میں ایک قوم ظاہر ہوگی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس امت سے ظاہر ہوگی۔ تم اپنی نماز كو ان نماز کے مقابلے میں بہت حقیر خیال کرو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت بھی خوب کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق یا گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے تیر انداز اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے پھل کو دیکھتا ہے اس کے پروں کو دیکھتا ہے، اس کی جڑ کو دیکھتا ہے، اس کو شک ہوتا ہے کہ شاید اس پر کچھ خون لگا ہو؟ (مگر وہ بھی صاف ہوتا ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6931]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ خارجی لوگوں میں ذرا بھی ایمان نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6931
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6931
6931. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور عطاء بن یسار سے روایت ہے وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس آئے اور ان سے حرویہ (خوارج) کے متعلق سوال کیا کہ تم نے ان سے متعلق نبی ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: حروریہ کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔ البتہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اس امت میں ایک قوم ظاہر ہوگی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس امت سے ظاہر ہوگی۔ تم اپنی نماز كو ان نماز کے مقابلے میں بہت حقیر خیال کرو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت بھی خوب کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق یا گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے تیر انداز اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے پھل کو دیکھتا ہے اس کے پروں کو دیکھتا ہے، اس کی جڑ کو دیکھتا ہے، اس کو شک ہوتا ہے کہ شاید اس پر کچھ خون لگا ہو؟ (مگر وہ بھی صاف ہوتا ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6931]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حروریہ (خوارج)
کے متعلق فرمایا:
میں ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا لیکن دوسری حدیث میں ہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں قتل کیا تھا اور میں ان کے ہمراہ تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا انکار اس امر پر مبنی تھا کہ انھوں نے حروریہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام لے کر کچھ کہا ہو، البتہ کچھ علامتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھیں جن کے ذریعے سے میں نے ان کی شناخت کی ہے کہ واقعی یہ وہی ہیں۔
(2)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان خوارج کے متعلق فرمایا:
وہ اس امت سے نہیں ہوں گے جبکہ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ وہ اس امت سے ہوں گے؟ دراصل امت کی دو قسمیں ہیں:
ایک امت دعوت اور دوسری امت اجابت، انکار کی بنیاد یہ ہے کہ وہ امت اجابت سے نہیں ہوں گے کہ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی اور اس پر ڈٹے رہے۔
اور اقرار کی بنیاد یہ ہے کہ وہ امت دعوت سے ہوں گے اور ان تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ چکی ہوگی لیکن انھوں نے اس سے انحراف کیا۔
(3)
اس حدیث کے مطابق خوارج بڑے عبادت گزار تھے، بظاہر صوم وصلاۃ کے پابند تھے جیسا کہ ایک روایت میں راوی نے ان کا وصف بیان کیا ہے کہ دن کے وقت روزہ رکھتے، رات کو قیام کرتے اور صدقہ وخیرات بھی سنت کے مطابق وصول کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب ان سے مناظرہ کرنے کے لیے گئے تو فرماتے ہیں کہ نمازیں پڑھنے کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر نشانات بنے ہوئے تھے، الغرض ان کے اندر محض ظاہری طور پر دین داری کے اثرات تھے باطن میں وہ بالکل کورے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ لوگ بت پرستوں سے تو نہیں الجھیں گے لیکن اہل اسلام سے برسرپیکار ہوں گے، اگر میں ان کو پاؤں تو انھیں قوم عاد کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹاؤں۔
“ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3344)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں ایسے لوگوں کا قوم ثمود کی طرح صفایا کروں گا۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4351) (4)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے خوارج کے قتل کرنے کو ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں ایسے لوگوں کو پاؤں تو انھیں ضرور نیست ونابود کروں گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6931