حدثنا إسحاق بن إبراهيم، اخبرنا وكيع. ح وحدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: لما نزلت هذه الآية: الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم سورة الانعام آية 82، شق ذلك على اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقالوا: اينا لم يظلم نفسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس كما تظنون، إنما هو كما قال لقمان لابنه: يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم سورة لقمان آية 13".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا، ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم»”وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا“ تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» کہ ”اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔“
Narrated `Abdullah: When the Verse:--'Those who believe and did not confuse their belief with wrong (worshipping others besides Allah).' (6.82) was revealed, it was hard on the companions of the Prophet and they said, "Who among us has not wronged (oppressed) himself?" Allah's Apostle said, "The meaning of the Verse is not as you think, but it is as Luqman said to his son, 'O my son! Join not in worship others with Allah, Verily! Joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.'" (31.13)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 70
لما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم قلنا أينا لا يظلم نفسه قال ليس كما تقولون ولم يلبسوا إيمانهم بظلم بشرك أولم تسمعوا إلى قول لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
لما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمعون إلى قول لقمان إن الشرك لظلم عظيم
لما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمع إلى قول لقمان لابنه إن الشرك لظلم عظيم
لما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يظلم نفسه قال رسول الله ليس كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
لما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا أينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه وهو يعظه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
لما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لا يظلم نفسه قال رسول الله ليس هو كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
لما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا وأينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6937
´تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان` «. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 . . .» ”. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم»”وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا“ تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» کہ ”اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6937] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6937 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَأَوِّلِينَ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں کس طرح مناسبت قائم ہو گی؟ کیوں کہ حدیث میں بظاہر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی، جو باب کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «و وجه دخول فى الترجمة من جهة أنه صلى الله عليه وسلم لم يؤاخذ الصحابة بحملهم الظلم فى الآية على عمومة حتي يتناول كل معصية قولهم سار يسور إذا ارتفع ذكره . . . . . .»[فتح الباري لابن حجر: 261/13] ”ترجمۃ الباب میں اس حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت مبارکہ میں مذکور ظلم کو اس کے عموم پر محمول کرنے کی وجہ سے کہ ہر معصیت متناول ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مواخذہ نہ فرمایا، بلکہ انہیں معذور جانا، کیوں کہ ظاہر میں یہی تاویل تھی، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس مراد کی وضاحت فرمائی جس سے اشکال دور ہو گیا۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لفظ ”ظلم“ کی تاویل فرمائی جو کہ عمومیت پر قائم تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس تاویل و عذر کو قبول فرما لیا اور ان پر کسی قسم کا مواخذہ یا نکیر نہیں فرمائی۔ اب گفتگو کا خلاصہ اور باب سے حدیث کی مناسبت اس طرح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کی تاویل شرک کے ساتھ فرمائی جبکہ ظلم کا عمومی اور ظاہری معنی تو گناہ کے ہیں جس میں ہر شخص داخل ہے اور تاویل (جیسا کے باب میں مذکور ہے) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، لہٰذا اسی کی تاویل یقینی طور پر قبول ہے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مطابقت باب سے حدیث کی اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا جب انہوں نے ظلم کی تاویل مطلق گناہ سے کی بلکہ اس کی جگہ انہیں دوسرا صحیح معنی بتایا۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3067
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم»”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی“(الأنعام ۸۲)، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”(تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: «يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم»”اے میرے بیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3067]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی۔ (الأنعام: 82)
2؎: اے میرے بیٹے! شرک نہ کر۔ شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان: 13)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3067
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6937
6937. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔“ تو نبی ﷺ کے صحابہ کو بہت پریشانی ہوئی۔ انہوں نےکہا: ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ یہ تو ایسے ہے جیسے حضرت لقمان نے اپنے لخت جگر سے کہا تھا: ”اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6937]
حدیث حاشیہ: باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر مواخذہ نہیں کیا جنہوں نے مالک کو منافق کہا تھا اس لیے کہ وہ تاویل کرنے والے تھے یعنی مالک کے حالات کو دیکھ کر اسے منافق سمجھتے تھے تو ان کا گمان غلط ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6937
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6937
6937. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔“ تو نبی ﷺ کے صحابہ کو بہت پریشانی ہوئی۔ انہوں نےکہا: ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ یہ تو ایسے ہے جیسے حضرت لقمان نے اپنے لخت جگر سے کہا تھا: ”اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6937]
حدیث حاشیہ: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آیت کریمہ میں ذکر کردہ ظلم کو عموم پر محمول کیا، اس لیے وہ پریشان ہوئے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس طرح کی کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں فرمایا کیونکہ ان کی یہ تاویل ظاہر اور لغت عرب کے اعتبار سے واضح تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آیت کریمہ میں ظلم سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق کمی بیشی کرنا ہے، پھر اس مفہوم کی تائید کے لیے قرآن مجید کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں لفظ ظلم اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (فتح الباري: 380/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6937