اور عمر بن حمزہ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث۔ ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا۔“
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7413
حدیث حاشیہ: 1۔ ان احادیث میں لفظ قبض ہے جس کے معنی ہیں: کسی چیز کو مٹھی میں لینا۔ یہ مٹھی ہاتھ کی ہوتی ہے جبکہ اس حدیث میں دائیں ہاتھ کا بھی صراحت سے ذکر آیا ہے۔ صحیح مسلم میں مزید وضاحت ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لے گا اور کہے گا: آج میں بادشاہ ہوں۔ ظلم وتشدد کرنے والے کہاں ہیں؟ فخروغرور کرنے والے کہاں ہیں؟ پھر زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے گا اور کہے گا: آج میں بادشاہ ہوں۔ ظلم وتشدد کرنے والے کہاں ہیں؟ فخروغرور کرنے والے کہاں؟“(صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7051(2788) ایک دوسری حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لے گا اور فرمائے گا: میں اللہ ہوں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس منظر کشی کے وقت اپنی انگلیوں کو بند کرتے اورکبھی انھیں کھول دیتے۔ میں بادشاہ ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پر جوش انداز میں یہ حدیث بیان کر رہے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر نیچے سے (لے کر اوپر تک) حرکت کرتا نظر آیا، یہاں تک کہ میں نے کہا: کیا وہ (منبر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لے کر گر جائے گا؟ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7052(2788) 2۔ ایک طویل حدیث میں مرحلہ وار حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کےحضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا: ان دونوں میں سے ایک اختیار کرلو۔ حضرت آدم علیہ السلام نے دائیں مٹھی کو اختیار کیا۔ میرے رب کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں اور خیروبرکت سے بھر پور ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹھی کو کھولا تو اس میں آدم علیہ السلام کی تمام اولاد تھی۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3368) ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کا ذکر ہے بلکہ بائیں ہاتھ کی بھی صراحت ہے، البتہ خیروبرکت کے اعتبارسے دونوں ہاتھ ایک جیسے ہیں اور دونوں ہی خیروبرکت سے بھر پور ہیں۔ جس روایت میں اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں کو دایاں کہا گیا ہے وہ خیروبرکت کے اعتبار سے ہے، مخلوق کا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے کمزور ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا بایاں ہاتھ ایسا نہیں ہوگا، بلکہ قوت وطاقت اور خیروبرکت میں دائیں ہاتھ جیسا ہے احادیث میں ہاتھوں کو پھیلانے، کھولنے، سمیٹنے اور ان کے دائیں، بائیں دو ہونے کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے، یہ تمام حقائق اس سے مراد قدرت یا نعمت ہونے کی پرزور تردید کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7413