الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4496
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس، جب دونوں عورتیں مقدمہ لائیں تو ان میں سے کسی کے پاس شہادت یا دلیل نہ تھی تو اب فیصلہ قرائن و آثار کی روشنی میں ہو سکتا تھا تو حضرت داؤد علیہ السلام کی نظر کسی ایسے قرینہ پر پڑی جو بڑی کے حق میں جاتا تھا، مثلا بچہ بڑی کے پاس تھا اور چھوٹی کے پاس شہادت نہ تھی یا بچہ کی رنگت و شکل و شباہت بڑی سے ملتی جلتی تھی یا بڑی کا انداز و اسلوب اور ھئیت مثلا اس کا مطمئن و خوش و خرم ہونا اور انتہائی پراعتماد ہونا، اس کے حق میں جاتا تھا، جبکہ چھوٹی پثر مردہ اور پریشان تھی، اس لیے حضرت داؤد علیہ السلام نے فیصلہ اس کے حق میں کر دیا، جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے یہ ماجرا اور فیصلہ آیا تو انہوں نے ایک نفسیاتی طریقہ اختیار کیا کہ میں بچہ دونوں میں تقسیم کر دیتا ہوں، جس پر بڑی راضی ہو گئی کہ اگر میرا بچہ نہیں رہا تو یہ بھی محروم ہو جائے اور اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکے تو اس نفسیاتی اور واقعاتی قرینہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھانپ لیا کہ بچہ چھوٹی کا ہے اور بڑی نے بھی اعتراض نہ کیا کہ بڑی عدالت سے فیصلہ میرے حق میں ہو گیا ہے، آپ اس کو تبدیل کرنے کے مجاز کیسے ہو گئے ہیں، اس طرح گویا اس نے بچہ کے چھوٹی کے ہونے کا اقرار و اعتراف کر لیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ صورت حال اپنے باپ کے سامنے رکھی تو انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر کے بیٹے کے فیصلہ کی توثیق کر دی، وگرنہ بڑی عدالت کا فیصلہ چھوٹی عدالت بدلنے کی مجاز نہیں ہے، بہرحال اس سے اصل مقصود یہ ہے کہ اہل صلاحیت و استعداد اور اہل علم کے فہم میں اختلاف ہو سکتا، جیسا کہ خود قرآن مجید میں آیا ہے: ﴿فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا﴾(الانبیاء: 79) ہم نے فیصلہ کی صورت حال سلیمان کو سمجھا دی اور ہم نے دونوں کو حکمت و علم سے نوازا تھا، فہم کے اختلاف کی بنا پر فیصلہ اور مسائل میں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن حق بات بہرحال ایک ہو گی، اس لیے اگر تبادلہ خیال سے دوسرے کی بات کی درستگی واضح ہو جائے تو اس کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے اور یہ عظمت کی دلیل ہے، اس میں توہین و تخفیف کا کوئی پہلو نہیں ہے اور نہ کسر شان کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی تعریف کی ہے، اس لیے ائمہ کے اختلاف کی بنا پر، ان کی تکریم و توقیر میں کمی کرنا اور ان پر زبان طعن دراز کرنا، درست نہیں ہے، لیکن بات اس کی مانی جائے گی جس کی بات قرآن و سنت کے مطابق یا اس سے قریب تر ہے اور اس سے کسی امام کی گستاخی یا بے ادبی لازم نہیں آتی، بلکہ گستاخی اور سوء ادبی یہ ہے کہ امام کے قول کی تاویل کی بجائے احادیث کو تاویل کا نشانہ بنایا جائے، گویا کہ امام واجب الاتباع ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واجب الاتباع نہیں ہے۔