حدثنا عمرو بن عون، قال: اخبرنا هشيم. ح وحدثنا مسدد، حدثنا هشيم، عن عباد بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يمينك على ما يصدقك عليها صاحبك". قال مسدد: قال: اخبرني عبد الله بن ابي صالح، قال ابو داود: هما واحد: عبد الله بن ابي صالح، وعباد بن ابي صالح. حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَمِينُكَ عَلَى مَا يُصَدِّقُكَ عَلَيْهَا صَاحِبُكَ". قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُمَا وَاحِدٌ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، وَعَبَّادُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قسم کا اعتبار اسی چیز پر ہو گا جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے“۔ مسدد کی روایت میں: «أخبرني عبد الله بن أبي صالح» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عباد بن ابی صالح اور عبداللہ بن ابی صالح دونوں ایک ہی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأیمان 4 (1653)، سنن الترمذی/الأحکام 19 (1354)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 14 (2120)، (تحفة الأشراف: 12826)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/228)، سنن الدارمی/النذور 11 (2394) (صحیح)»
Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: Your oath should be about something regarding which your companion will believe you. Musaddad said: Abdullah bin Abi Salih narrated to me. Abu Dawud said: Both of them refer to the same person: 'Abbad bin Abu Salih and Abdullah bin Abi Salih.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3249
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2121
´جو کوئی قسم میں توریہ کرے اس کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قسم اسی مطلب پر واقع ہو گی جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2121]
اردو حاشہ: فائدہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قسم کھا کر ذو معنی بات کہی اور ایسا معنی مراد لیا جو سچ تھا لیکن مخاطب اس سے وہ معنی نہیں سمجھا اور جو معنی مخاطب نے سمجھا اس کے لحاظ سے بات غلط تھی تو یہ جھوٹی قسم ہو گی۔ قسم کا وہی مفہوم معتبر ہو گا جو قسم دلانے والا سمجھتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2121
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3255
´قسم کھانے میں توریہ کرنا یعنی اصل بات چھپا کر دوسری بات ظاہر کرنا کیسا ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قسم کا اعتبار اسی چیز پر ہو گا جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے۔“ مسدد کی روایت میں: «أخبرني عبد الله بن أبي صالح» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عباد بن ابی صالح اور عبداللہ بن ابی صالح دونوں ایک ہی ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3255]
فوائد ومسائل: مسلمانوں کے درمیان آپس میں تنازعات کے فیصلوں کے لئے اشارات وتعریضآات(توریے)سے قسم اٹھانا کسی طرح مفید مطلب نہیں۔ بلکہ ناجائز ہے۔ البتہ کفار یا ظالموں سے آویزش ہو تو رخصت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3255