حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن سعد، اخبرني ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال:" كان اهل الكتاب يعني يسدلون اشعارهم وكان المشركون يفرقون رءوسهم وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم تعجبه موافقة اهل الكتاب فيما لم يؤمر به فسدل رسول الله صلى الله عليه وسلم ناصيته ثم فرق بعد". حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَعْنِي يَسْدِلُونَ أَشْعَارَهُمْ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُعْجِبُهُ مُوَافَقَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ فَسَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاصِيَتَهُ ثُمَّ فَرَقَ بَعْدُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔
Narrated Ibn Abbas: The people of the Book used to let their hair hand down, and the polytheists used to part their hair. The Messenger of Allah ﷺ like to confirm with the People of the Book in the matters about which he had received no command. Hence he Messenger of Allah ﷺ let his forelock hang down but afterwards he parted it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 34 , Number 4176
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5917) صحيح مسلم (2336)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3632
´کان کی لو سے بال نیچے رکھنے اور چوٹیاں رکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3632]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) مکہ مکرمہ میں مشرکین کی اکثریت تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان سے امتیاز کے لئے اہل کتا ب کا انداز اختیار فرما لیتے تھے۔ جب رسول ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں موجود کثیر اہل کتاب سے فرق کرنے کے لئے دوسرا انداز اختیار فرمایا۔
(2) رسول اللہ ﷺ کا ہر عمل وحی کی روشنی میں ہوتا تھا اس لئے بال مانگ نکالے بغیر کھلے چھوڑنا منسوخ ہے اور مانگ نکالنا مسنون اور ثواب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3632
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4188
´بال میں مانگ نکالنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4188]
فوائد ومسائل: واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مانگ نکالنا اللہ کے حکم سےتھا، اگرچہ مشرکین بھی نکالا کرتے تھے۔ پس مشرکین اور کفار کی وہی مشابہت نا جائز ہے جو ان کی دینی اور خاص قومی علامت ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4188