سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: سنتوں کا بیان
Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)
13. باب مَا يَدُلُّ عَلَى تَرْكِ الْكَلاَمِ فِي الْفِتْنَةِ
13. باب: فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔
Chapter: Instructions Regarding Refraining From Speech During The Period Of Turmoil.
حدیث نمبر: 4667
Save to word اعراب English
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا القاسم بن الفضل، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"تمرق مارقة عند فرقة من المسلمين يقتلها اولى الطائفتين بالحق".
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں اختلاف کے وقت ایک فرقہ نکلے گا جسے دونوں گروہوں میں سے جو حق سے قریب تر ہو گا قتل کرے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الزکاة 47 (1064)، (تحفة الأشراف: 44370)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/32، 97) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Saeed reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: In the event of the dissension among Muslims an emerging sect will emerge ; one of the two parties that is nearer to the truth will kill it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4650


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1065)
   صحيح مسلم2458سعد بن مالكتمرق مارقة عند فرقة من المسلمين يقتلها أولى الطائفتين بالحق
   صحيح مسلم2459سعد بن مالكتكون في أمتي فرقتان فتخرج من بينهما مارقة يلي قتلهم أولاهم بالحق
   صحيح مسلم2460سعد بن مالكتمرق مارقة في فرقة من الناس فيلي قتلهم أولى الطائفتين بالحق
   صحيح مسلم2461سعد بن مالكقوما يخرجون على فرقة مختلفة يقتلهم أقرب الطائفتين من الحق
   سنن أبي داود4667سعد بن مالكتمرق مارقة عند فرقة من المسلمين يقتلها أولى الطائفتين بالحق

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4667 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4667  
فوائد ومسائل:
1: مسلمانوں میں مختلف آرا کے حامل افرا د یا جماعتوں کا وجود ہو سکتا ہے جن میں سے یقینا ایک ہی حق پر ہو گا اور دوسرا اس سے بعید۔
مگر جب تک کوئی واضح صریح باطل فکروعمل سامنے نہ آئے ان کی ضلالت کا حکم نہ لگایا جائے۔
بلکہ علم وحکمت سے تفہیم ہونی چاہیے اور حتی الامکان ان کی اشاعت اور تشہیر سے خاموشی اختیار کی جائے، اسی سے وہ فتنہ دب سکے گا۔

2: اس حدیث میں خوارج کے ظہور کی پیشین گوئی کا بیان ہے، یہ حدیث نبی ؐ کی صداقت کی ایک دلیل ہے کیونکہ خوارج کا جس وقت ظہور ہوا، وہ اس حدیث کے عین مطابق ہے، یہ 32،38 ہجری کا واقعہ ہے جب حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ کے درمیان لڑائی جاری تھی۔
اس وقت نہروان سے فرقہ خوارج کا ظہورہوا اور حضرت علی رضی اللہ نے ان سے جنگ کی اور انہیں شکست فاش دی۔
اسی قسم کی احادیث کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ کو حضرت معاویہ کے مقابلے میں اقرب الی الحق کہا جاتا ہے۔

3: اس میں باہم لڑنے والے دونوں گروہوں کو مسلمان کہا گیا ہے، اس لئے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ دونوں اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں طعن وتشنیع کی بجائے کف لسان (خاموشی) ضروری ہے، کیونکہ دونوں ہی مسلمان اورحق پر تھے، گو ایک احق (زیادہ صحیح) تھا۔

4: فتنہ انگیز یا دین سے نکل جانے والا گروہ خوارج کا تھا، نہ کہ حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ کا گروہ تھا، وہ دونوں تو مسلمانوں کے عظیم گروہ تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4667   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2461  
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اختلاف پیدا کرنے والی گروہ بندی میں نکلیں گے ان دونوں گروہوں سے حق کے زیادہ قریب تر گروہ قتل کرے گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2461]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق آپﷺ کے بعد امت قاتلین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےسلسلہ میں دوگروہوں میں بٹ گئی۔
ایک گروہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا اور دوسرا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ،
دونوں گروہ اپنے اپنے مؤقف کو درست تصور کرتے تھے ایک کے سامنے ایک پہلو تھا اور دوسرے کے سامنے دوسرا پہلو تھا۔
دونوں صاحب فکر ونظر اور اہل حل وعقد تھے اورخلوص نیت سے متصف تھے۔
لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مؤقف حق سے قریب تر تھا اور اس کو اپنانا یا اختیار کرنا زیادہ صحیح اور درست تر تھا،
لیکن دوسرا گروہ سراسر باطل یا ناحق پر نہیں تھا۔
اس لیے آپﷺ نے اس گروہ کی تردید یا تغلیط نہیں کی کیونکہ انہوں نے بھی پورے اخلاص اور سوچ وبچار کے ساتھ مؤقف اختیار کیا تھا۔
اس لیے اس گروہ یا اس کے قائد کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کرنا۔
ان سے بغض وکینہ رکھنا۔
کوئی پسندیدہ حرکت نہیں ہے۔
جبکہ آپﷺ نے قصور وار یا خطاکار بھی قرار نہیں دیا ہے ان کے مد مقابل کو اقرب الی الحق یا اولیٰ بالحق قرار دینے سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ دوسرے کا حق سے کوئی تعلق رابط نہیں تھا۔
نیز مجتہد تو خطاکار بھی ہوتو وہ اجر سے محروم نہیں رہتا۔
اس لیے اس کے خلاف زبان طعن کیسے دراز کی جا سکتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دوسرے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
(أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ (1)
،
وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ،
وَدَعْوَتَنَا فِي الاِْسْلاَمِ وَاحِدَةٌ،
لاَ نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الاِْيمَانِ (2)
باللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ (صلى الله عليه وآله)
،
وَلاَ يَسْتَزِيدُونَنَا،
الاَْمْرُ وَاحِدٌ،
إِلاَّ مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمانَ،
وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ!)

(نہج البلاغہ جلد 2۔
صفحہ 114۔
تحقیق امام عبدہ بحوالہ رحماء بینھم حصہ چھارم صفحہ 183)

ہمارا رب ایک ہے،
ہمارا نبی ایک ہے،
اسلام کے بارے میں ہماری دعوت ایک ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے رسول کی تصدیق کرنے میں نہ ہم سے بڑھ کر ہیں اور نہ وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ہمارا اور ان کا دینی معاملہ ایک جیسا ہے۔
مگرعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کےبارے میں ہمارا ان کا اختلاف ہے۔
حالانکہ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔
اورخود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں گروہوں کو (فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ)
مسلمانوں کی دو عظیم جماعتیں قراردیاہے۔
(بخاری شریف ج،
1 صفحه: 530)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2461   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.