وضاحت: ۱؎: یعنی اتنا اجالا ہو جانے دو کہ طلوع فجر میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے، یا یہ حکم ان چاندنی راتوں میں ہے جن میں طلوع فجر واضح نہیں ہوتا، شاہ ولی اللہ دہلوی (حجۃ اللہ البالغہ) میں لکھتے ہیں کہ یہ خطاب ان لوگوں کو ہے جنہیں جماعت میں کم لوگوں کی حاضری کا خدشہ ہو، یا ایسی بڑی مسجدوں کے لوگوں کو ہے جس میں کمزور اور بچے سبھی جمع ہوتے ہوں، یا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ فجر کی نماز خوب لمبی پڑھو، تاکہ ختم ہوتے ہوتے خوب اجالا ہو جائے، جیسا کہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ فجر کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو آدمی اپنے ہم نشیں کو پہنچان لیتا اس طرح اس میں اور «غلس» والی روایتوں میں کوئی تضاد و تعارض نہیں رہ جاتا ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث672
اردو حاشہ: صبح کو روشن کرو کا یہ مطلب لینا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب خوب روشنی پھیل جائے (جیسا کہ احناف کے ہاں معمول ہے) غلط ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ (غلس) ”اندھیرے میں، اول وقت “میں فجر کی نماز پڑھتے رہے۔ اس لیے اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فجر کی نماز اس وقت ادا کی جائے جب صبح صادق طلوع ہوجانے کا یقین ہوجائے۔ صبح کاذب میں ادا نہ کی جائے یا پھر یہ مطلب ہے کہ قرات طویل کرو تاکہ نماز سے فارغ ہوتو صبح روشنی ہوچکی ہو کیونکہ گزشتہ احادیث سے اوّل وقت پڑھنے کی فضیلت ظاہر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 672
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 134
´نماز فجر میں قرأت لمبی کی جائے` «. . . وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اصبحوا بالصبح فإنه اعظم لاجوركم . . .» ”. . . سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نماز فجر صبح کے خوب واضح ہونے پر پڑھا کرو۔ یہ تمہارے اجر میں اضافہ کا موجب ہو گی . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 134]
� لغوی تشریح: «أَصْبِحُوا بِالصُّبْحِ» اور ایک دوسری روایت میں «أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ» کے الفاظ ہیں۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نماز فجر اس وقت پڑھو جب صبح خوب روشن اور واضح ہو جائے۔ مگر اس معنی کے اعتبار سے یہ حدیث غلس والی حدیث کے معارض ہو جاتی ہے، اس لیے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ نماز کا آغاز تاریکی اور اندھیرے میں کیا جائے اور قرأت لمبی کی جائے حتی کہ صبح خوب روشن اور واضح ہو جائے، اس طرح دونوں روایتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ حافظ ابن قیم اور علامہ طحاوی رحمہما اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے مگر امام احمد اور امام شافعی رحمہما اللہ وغیرہ نے ”اسفار“ کا مفہوم یہ بتلایا ہے کہ فجر واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ طلوع فجر کے تیقن کے بغیر فجر کی نماز پڑھنا صحیح نہیں۔
فوائد و مسائل: ➊ احناف نے اس حدیث کو مدار استدلال بنا کر اسفاء کو افضل قرار دیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی عمل، خلفائے راشدین، جمہور صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کے عمل کی بنا پر یہ استدلال وزنی نہیں رہتا۔ ➋ ابوداود میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک بار نماز فجر غلس (تاریکی) میں پڑھی اور ایک بار اسفار میں بھی پڑھی۔ بعد ازاں وفات تک ہمیشہ غلس ہی میں پڑھتے رہے۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب فى المواقيت، حديث: 394] ➌ اس حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ صبح واضح اور صاف طور پر معلوم ہونے لگے۔ کسی قسم کا شک باقی نہ رہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے۔ یا پھر مراد لمبی قرأت کر کے روشن کرنا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 134
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 424
´فجر کے وقت کا بیان۔` رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبح طلوع ہونے پر (ہی) صبح کی نماز پڑھا کرو۔ بلاشبہ یہ تمہارے لیے بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 424]
424۔ اردو حاشیہ: کچھ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ”سفیدی اور روشنی ہونے پر فجر کی نماز پڑھا کرو۔“ مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خیرالقرون میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول ثابت ہے کہ وہ سب فجر کی نماز «غلس» یعنی صبح کے اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے۔ حضرت عمر، حضرت علی، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم پر صبح کے اندھیرے ہی میں قاتلانہ حملے ہوئے تھے۔ نیز لغوی طور پر «أصبح الرجل» کا معنی ہے «دخل الصبح»”یعنی صبح کے وقت میں داخل ہوا۔“ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ شاید کچھ لوگ بہت زیادہ جلدی کرتے ہوئے قبل از وقت نماز پڑھ لیتے تھے، تو اس حکم سے ان کی اصلاح فرمائی گئی۔ اور اس مفہوم کی دوسری روایت «اسفروا بالصبح» بالمعنی روایت ہوئی ہے۔ اور ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ یہ ارشاد چاندنی راتوں سے متعلق ہے کیونکہ ان راتوں میں صبح صادق کے نمایاں ہونے میں قدرے اشتباہ سا ہوتا ہے۔ اور علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ہے ”فجر کی نماز میں قرأت اتنی طویل کرو کہ فضا سفید ہو جائے۔“ بہرحال افضل یہی ہے کہ فجر صادق کے بعد جلد ہی اسے ادا کیا جائے۔ اور اس کے بعد اس کا وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے۔ [عون المعبود۔ خطابي]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 424
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 154
´فجر اجالا ہو جانے پر پڑھنے کا بیان۔` رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”فجر خوب اجالا کر کے پڑھو، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 154]
اردو حاشہ: 1؎: نبی اکرم ﷺ نیز صحابہ و تابعین و سلف صالحین کے تعامل کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔ باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جو بہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی نماز منہ اندھیرے اوّل وقت میں شروع کرو، اور تطویل قرأت کے ساتھ اُجالا کرلو، دونوں طرح کی احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الأحوذی جلداوّل ص145، طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان، پاکستان)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 154
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:413
413- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”فجر کی نماز روشن کرکے پڑھو، کیونکہ یہ زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تہارے لئے زیادہ اجر کا باعث ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:413]
فائدہ: اس حدیث کا معنی ہے کہ نماز فجر پڑھنے میں جلدی نہ کرو بلکہ جب اس کا وقت ہو جائے تب ادا کی جائے۔ مولانا داود راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فورا بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کا فی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازختم ہو جایا کرتی تھی۔ لفظ «غسلس» کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اول وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تا کہ اس نماز کا بھی اول وقت غلس اور آخر وقت اسفار معلوم ہو جائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اند ھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔ جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔ «عـن ابــى مسـعـود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلوة الصبح مرة بغلس ثم صلى مرة اخرى فاسفربها ثم كانت صلوته بعد ذالك التخليس حتى مات ولم يعدالى ان يسفر»[رواه ابوداؤد ورجاله فى سنن ابي داؤد رجال الصحيح] یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھائی اور پھر ایک مرتبہ اسفار (یعنی اجالے) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اسفار یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔ حدیث عائشہ کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: ´´والحديث يدل على استحباب المبادرة بصلوة الفجر فى اول الوقت وقد اختلف العلماء فى ذلك فذهب العترة ومالك والشافعي و أحمد واسحاق وابوثور والاوزاعي وداؤد بن على و ابوجعفر الطبرى وهو المروى عن عمروبن عثمان وابن الزبير وانس وابى موسى وابى هريرة الى ان التغليس افضل وان الاسفار غير مندوب وحكى هذا القول الحازمي عن بقية الخلفاء الاربعة وابن مسعود وابي مسعود الانصاري واهل الحجاز واحتجوا بالاحاديث المذكورة فى هذا الباب وغيرها ولتصريح ابي مسعود فى الحديث بانها كانت صلوة النبى على التغليس حتى مات ولم يعد الى الاسفار`` [نيل، ج2، ص: 19] خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اور خلفائے اربعہ اور اکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، أحمد، اسحاق، واہل بیت نبوی اور دیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اور سارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: «عن مغيث بن سمى قال صليت مع عبدالله بن الزبير الصبح بغلس فلما سلم اقبلت على ابــن عــمــر فقلت ما هذه الصلوة قال هذه صلوتنا كانت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر فلما طعن عمر اسفربها عثمان» [و اسناده صحيح تحفة الاحوذى ج 1 ص: 144 66] یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز غلس میں یعنی اندھیرے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں سیدنا عبد اللہ بن عمر بن رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں بھی یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگر جب سیدنا عمر علی رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیا گیا تو احتیاطاً سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔ اس سے بھی ظاہر ہوا کہ نماز فجر کا بہترین وقت غلس یعنی اندھیرے ہی میں پڑھنا ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس کے لیے اسفار یعنی اجالے میں پڑھنا بہتر مانا گیا ہے۔ مگر دلائل واضحہ کی بنا پر یہ خیال درست نہیں۔ حنفیہ کی دلیل رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مذکور ہے کہ «اســفــروا بالفجر فانه اعظم للاجر» یعنی صبح کی نماز اجالے میں پڑھو اس کا ثواب زیادہ ہے۔ اس روایت کا یہ مطلب درست نہیں کہ سورج نکلنے کے قریب ہونے پر یہ نماز ادا کرو جیسا کہ آج کل حنفیہ کا عمل ہے۔ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ائمہ کرام سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ امام صاحب فرماتے ہیں: ´´وقال الشـافـعى واحـمـد و اسـحـاق مـعـنى الاسفار ان يضح الفجر فلايشك فيه ولم يروا ان معنى الاسفار تاخير الصلوۃ `` یعنی امام شافعی رحمہ اللہ و أحمد و اسحاق فرماتے ہیں کہ یہاں ”اسفار“ کا مطلب یہ ہے کہ فجر خوب واضح ہو جائے کہ کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے، اور یہ معنی نہیں کہ نماز کو تاخیر کر کے پڑھا جائے (جیسا کہ حنیفہ کا عام معمول ہے) بہت سے ائمہ دین نے اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ نماز فجر کو اندھیرے میں ”غلس“ میں شروع کیا جائے اور قرٱت اس قدر طویل پڑھی جائے کہ سلام پھیرنے کے وقت خوب اجالا ہو جائے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد رشید امام محد رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ [تفهيم البخاري پارو3 ص: 3] سیدنا علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”اعلام الموقعین“ میں بھی یہی تفصیل بیان کی ہے۔ یادر کھنے کی باتیں: یہ که یہ اختلاف مذکور محض اولیت و افضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہر شخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت غلس اور آخر وقت طلوع شمس ہے اور درمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام و خواص برادران پر جو پھر بھی غلس میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر غلس میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتی کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اول وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بناء پر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اور ایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خود اکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ غلس کا عمل رہا ہے۔ بہرحال دائل قومیہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پرلڑنا، جھگڑنا اور اسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عاملوں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اول وقت میں پڑھا کرو۔ [شرح صحيح بخاري از مولانا داود راز شرح حديث: 578]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 413