عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے والد کعب رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا، تو ان کے پاس ام بشر بنت براء بن معرور (رضی اللہ عنہما) آئیں، اور کہنے لگیں: اے ابوعبدالرحمٰن! اگر فلاں سے آپ کی ملاقات ہو تو ان کو میرا سلام کہیں، کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام بشر! اللہ تمہیں بخشے، ہمیں اتنی فرصت کہاں ہو گی کہ ہم لوگوں کا سلام پہنچاتے پھریں، انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا: ”مومنوں کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی، اور جنت کے درختوں سے کھاتی چرتی ہوں گی“، کعب رضی اللہ عنہ کہا: کیوں نہیں، ضرور سنی ہے، تو انہوں نے کہا: بس یہی مطلب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 13 (1641)، سنن النسائی/الجنائز 117 (2075)، (تحفة الأشراف: 11148)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز 16 (49)، مسند احمد (3/455، 456، 460، 6/386، 425) (ضعیف)» (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے، جو (4271) نمبر پر آ رہی ہے)
It was narrated from ‘Abdur-Rahman bin Ka’b bin Malik, about Ka’b:
“When Ka’b was dying, Umm Bishr bint Bara’ bin Ma’rur came to him and said: ‘O Abu ‘Abdur-Rahman! If you meet so-and-so, convey Salam to him from me.’ He said: ‘May Allah forgive you, O Umm Bishr! We are too busy to think of that.’ She said: ‘O Abu ‘Abdur-Rahman! Did you not hear the Messenger of Allah (ﷺ) say: “The souls of the believers are in green birds, eating from the trees of Paradise”?’ He said: ‘Yes.’ She said: ‘That is what I mean.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن إسحاق مدلس ولم أجد تصريح سماعه والحديث الآتي (الأصل: 4271) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 429
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1449
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مزید لکھا ہے کہ آئندہ آنے والی حدیث (4271) اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا موجودہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2) میت کو جنت میں اس کے درجے کے مطابق نیا جسم مل جاتا ہے۔
(3) جنت کی راحت اور جہنم کاعذاب مرنے کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔
(4) ان معاملات کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ جو اس دنیا سے بالکل مختلف جہان ہے۔ اس کے حالات کو دنیا کے حالات کی روشنی میں سمجھنا ممکن نہیں۔ اس لئے جتنی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔ اس پر ایمان رکھنا چاہیے۔ اس کی کیفیت کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1449
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:897
897- سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اپنے والد کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا، تو سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: آپ مبشر کو میری طرف سے سلام کہیے گا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے ام مبشر! کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے؟ تو اس خاتون نے عرض کی: مجھے نہیں معلوم میں بوڑھی ہوگئی ہوں، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی ہوں۔ تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”مومن کی جان سبز پرندے کی شکل میں ہوتی ہے، جو جنت کے پھلوں کو کھاتی ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:897]
فائدہ: جنت برحق ہے، اور اس کی نعمتیں برحق ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے تیار کی ہیں، سبز پرندوں کی شکل میں مومن کی روح ہوگی جہاں سے مرضی کھاتی پھرے گی، اور یہ حقیقت پر محمول ہے، دنیاوی سبز پرندوں کو مراد لینا غلط ہے، وہ تو جنتی پرندے ہوں گے، سبحان اللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 896