ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين أنتم لنا فرط وإنا بكم لاحقون اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم»”اے مومن گھر والو! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا“۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“I could not find him, meaning the Prophet (ﷺ), and he was in Al-Baqi’. He said: “As-salamu ‘alaykum dara qawmin mu’minin. Antum lana faratun wa inna bikum lahiqun. Allahumma la tahrimna ajrahum wa la taftinna ba’dahum. (Peace be upon you, O abode of believing people. You have gone ahead of us and verily we will join you soon. O Allah, do not deprive us of their reward and do not put us to trial after them).”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف وهو صحيح دون اللهم لا ... م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عاصم بن عبيداللّٰه: ضعيف والحديث الآتي (الأصل: 1547) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 433
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1546
´قبرستان میں پہنچ کر کیا دعا پڑھے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين أنتم لنا فرط وإنا بكم لاحقون اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم»”اے مومن گھر والو! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1546]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت سے آئندہ آنے والی روایت کفایت کرتی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ لیکن دیگر روایات کی وجہ سے معناً صحیح ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 487، 486/47 وصحیح ابن ماجة، رقم: 1266)
(2) قبروں کی زیارت مسنون ہے۔ تاکہ موت یاد آئے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوکر آخرت کی طرف توجہ ہوجائے۔
(3) قبروں کی زیارت جس طرح دن کے وقت کی جا سکتی ہے۔ رات کو بھی جائز ہے۔
(4) قبروں کی زیارت کا مقصد فوت ہونے والوں کےلئے دعا ہے۔ فوتشدگان سے کچھ مانگنا جائز نہیں۔ کیونکہ وہ لوگ نہ ہماری باتیں سنتےہیں۔ نہ ہماری درخواست قبول کرسکتے ہیں۔
(5) السلام و علیکم کہنے سے انھیں سنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے لئے دعا اور ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا مقصود ہے۔ کہ جس طرح یہ لوگ کل ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ آج قبروں میں پڑے ہیں۔ ہم پر بھی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے۔ جب ہم اسی طرح دفن ہوجایئں گے اور دوسروں کی دعاؤں کے محتاج ہوں گے۔
(6) دعا کا آخری جملہ نماز جنازہ کی دعاؤں میں شامل ہے وہاں پڑھنا درست ہے۔ دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1498)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1546