ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی کو کھانا کھانے کے لیے بلایا جائے، اور وہ روزے سے ہو، تو کہے کہ میں روزے سے ہوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ”میں صوم سے ہوں“ کہنے کا حکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طور پر ہے اگرچہ نوافل کا چھپانا بہتر ہے لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعو کے خلاف کوئی غلط فہمی یا کدورت راہ نہ پائے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1750
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب روزے دار کو کھا نے کی دعوت دی جائے تو اس کے لئے جائز ہے کہ روزہ کھول کر دعوت قبول کرلے اور کھانے میں شریک ہو جائے اور یہ بھی جائز ہے کہ کھانے سے معذرت کر لے۔
(2) روزہ دار کا دعوت دینے والے کو بتانا کہ میں روزے سے ہوں ریاکاری میں شامل نہیں کیونکہ اس کا مقصد اپنی نیکی کا اعلان نہیں بلکہ اپنے عذر کا اظہار ہے (3) یہ حکم نفلی روزے کے لئے ہے فرضی روزہ کھو لنا جا ئز نہیں سوائےاس کے کہ سفر یا مرض وغیرہ کا ایسا معقول عذر موجود ہو جس کی وجہ سے اس کے لئے روزہ چھوڑنا شرعاً جائز ہو گیا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1750
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2461
´جب روزہ دار کو کھانے کی دعوت دی جائے تو کیا جواب دے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے اور وہ روزے سے ہو تو اسے کہنا چاہیئے کہ میں روزے سے ہوں۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2461]
فوائد ومسائل: کھانے کی دعوت میں شریک ہونا افضل ہے۔ تاہم اگر عذر کرے اور بتا دے کہ میں روزے سے ہوں تو بھی جائز ہے۔ یا یہ مفہوم بھی ہے کہ اہل مجلس کو اپنے روزے کی خبر دے تو کوئی عیب کی بات نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2461
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 781
´روزہ دار دعوت قبول کرے اس کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے اور وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ وہ کہے میں روزہ سے ہوں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 781]
اردو حاشہ: 1؎: ”میں صوم سے ہوں“ کہنے کا حکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طور پر ہے، اگرچہ نوافل کا چھپانا بہتر ہے، لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعو کے خلاف کوئی غلط فہمی اور کدورت راہ نہ پائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 781
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2702
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کسی کو کھانے کی طرف بلایا جائے جبکہ وہ روزے دار ہو تو وہ کہہ دے میں روزے دار ہوں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2702]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اگرچہ نفلی نیکی کا اخفاء بہتر ہے لیکن ضرورت کے وقت اس کا اظہار ہو سکتا ہے نیز دعوت کے لیے روزہ کا افطار کرنا ضروری نہیں ہے حاضر ہو کر خیروبرکت کی دعا کرسکتا ہے اگردعوت دینے والا مجبور کرے اور اس کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہو تو پھر روزہ کھولا بھی جا سکتا ہے۔