عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشک کے منہ باہر کر کے پانی پینے سے منع فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت کے بعد ایک شخص نے رات کو اٹھ کر مشک کے منہ سے پانی پینا چاہا، تو اس میں سے ایک سانپ نکلا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6099، ومصباح الزجاجة: 1184) (ضعیف)» (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں، لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے، کما تقدم، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1126)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زمعة بن صالح ضعيف و روي الحاكم (4/ 140 ح 7213) بسند صحيح عن أبي ھريرة رضي اللّٰه عنه: ”أن رسول اللّٰه ﷺ نھي أن يشرب من في السقاء“ قال أيوب (السختياني،الراوي عن عكرمة عن أبي ھريرة): ”فأنبئت أن رجلاً شرب من في السقاء فخرجت حية“ و صححه علي شرط البخاري ووافقه الذهبي و رواه البخاري (5628) مختصرًا دون قول أيوب رحمه اللّٰه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 499
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3421
´مشک کے منہ سے پانی پینے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مشک کے منہ سے پانی پیا جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3421]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: حدیث: 3423 میں رسول اللہﷺ کے بذات خود مشکیزے کے منہ سے پانی پینے کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں طرح کی احادیث کو اس انداز سے جمع کرنے کی ترجیح دی ہے۔ کہ جواز اس وقت ہے۔ جب کوئی عذر ہو۔ مثلا مشک لٹکی ہوئی ہو۔ اور کوئی برتن موجود نہ ہو (جس میں سے مشک میں سے ڈال کر پانی پیا جاسکے) اور ہاتھ سے پینا مشکل ہو اس وقت (مشک کے منہ سے براہ راست پانی پی لینا) مکروہ نہیں اگرعذر نہ ہو تو منع کی احادیث پر عمل کیا جائے۔ (فتح الباري: 10/ 114)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3421