وضاحت: ۱؎: حدیث میں لفظ «خمار» آیا ہے اس سے مراد پگڑی ہی ہے، اس لیے کہ «خمار» کے معنی ہیں جس سے سر ڈھانپا جائے اور مرد اپنا سر پگڑی ہی سے ڈھانپتا ہے لہٰذا یہاں پگڑی ہی مراد ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 104
104۔ اردو حاشیہ: ➊ «الْخِمَار» سے مراد سر ڈھاپننے والی چیز ہے، یہاں مراد پگڑی اور عمامہ ہے۔ عام اوڑھنی مراد نہیں ہے۔ ➋ صرف پگڑی پر مسح مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف پگڑی پر بھی مسح ہو سکتا ہے۔ اس کے انکار کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ رہی احناف کی یہ بات کہ صرف پگڑی پر مسح کی روایت کو پیشانی سمیت پگڑی پر مسح کی روایت پر محمول کیا جائے تو یہ تطبیق اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب راویٔ قصہ ایک ہی صحابی ہوتا، لیکن اس صورت میں بھی درست رائے یہی ہے کہ یہ بعید نہیں کہ صحابی نے دو مختلف حالات کا مشاہدہ کیا ہو، پھر انہیں اسی طرح بیان کر دیا ہو، کبھی اس طرح اور کبھی اس طرح جیسا کہ کسوف شمس وغیرہ کی بابت مروی ہے جبکہ یہاں تو دونوں قسم کے مسحوں کا تذکرہ کرنے والے صحابہ بھی مختلف ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں طریقے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور صحابہ نے دونوں طریقوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ بنابریں جیسے حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت کے پیش نظر پیشانی سمیت پگڑی پر مسح کرنا جائز ہے اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے صرف پگڑی پر مسح کرنا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [محلی ابن حزم: 58/2]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 104
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث561
´پگڑی پر مسح کا بیان۔` بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں اور عمامہ (پگڑی) پر مسح کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 561]
اردو حاشہ: (1) سر کا مسح سر پر بھی کیا جاسکتا ہے اور پگڑی یا دوپٹے پر بھی اور سر پر شروع کرکے پگڑی پر ختم کرنا بھی درست ہے۔ صرف چوتھائی سر کے مسح کا کوئی واضح ثبوت نہیں۔ 2۔ اس حدیث میں خمار سے مراد پگڑی یا سر پر بندھا رہنے والا کپڑا سر بند وغیرہ ہے۔
(3) پگڑی کا مسح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی ایک جماعت سے مروی ہے چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ قول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی ایک جماعت کا ہےان میں حضرت ابو بکر، عمر اور انس رضوان اللہ علیہم شامل ہیں اور حضرت ابو امامہ، سعد بن مالک اور ابو درداء رضوان اللہ علیہم سے اس کے متعلق روایت منقول ہے۔
(4) اکثر حضرات کے نزدیک مسح عمامہ کے لیے طہارت (وضو کرکے پگڑی باندھنا) شرط نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 561
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:150
فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ موزوں اور پگڑی پر مسح کرنا درست ہے۔ پگڑی پر مسح کرنا سنت ہے چند دلائل پیش خدمت ہیں۔ دلیل نمبر ➊۔۔۔ «عـن عـمرو بن أميه قال: رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يـمسـح على عمامته و خفيه» ۔ سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے اپنی پگڑی اور دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔ (صحیح بخاری، ح: 205) امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (323۔ 311 ھ) اس حدیث پر یوں تبویب کر تے ہیں: «بـاب الرخصة فى المسح على العمامة» ۔ پگڑی پر مسح کرنے کی رخصت کا بیان۔ (صحیح ابن خزيمه: 91/1، ح: 181) امام ابن حبان رحمہ اللہ (م 345ھ) فرماتے ہیں: «ذكـر الابـاحة للمرء أن يمسح على عمامته كما كـان يمسح على خفيه سواء دون الناصية» اس بات کا بیان کہ آدمی کے لیے صرف اپنی پگڑی پر مسح کرنا بھی جائز ہے، اگرچہ پیشانی پر سے نہ بھی کرے، جیسا کہ موزوں پر مسح جائز ہے۔ (صحیح ابن حبان: 174/3، ح 1343) امام ابوفهد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی رحمہ اللہ (181۔ 255ھ) نے یوں باب بندی کی ہے: «بــاب الـمسح على العمامة» پگڑی پر مسح کا بیان۔ نیز ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس حدیث پرعمل کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: جی ہاں! اللہ کی قسم۔ (مسند الدارمي: 554/1، ح: 7370) دلیل نمبر ➋۔۔۔ «عن بلال: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مسح على الخفين و الخمار» ۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا۔ (صحیح مسلم، ح 275) امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث (صحیح مسلم 275) سے بھی صرف پگڑی پر مسح کرنا ثابت کیا ہے۔ (صحیح ابن خزيمه: 91/1، ح: 180) امام ترمذی رحمہ اللہ، فرماتے ہیں: ”باب ماجاء في المسح على العمامة“ ان روایات کا بیان جو پگڑی پر مسح کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ (جامع ترمذی، ح: 101) دلیل نمبر ➌۔۔۔ «عن ثوبان قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية، فأصابهم البرد، فلما قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرهم أن يمسحوا على الغصائب و التساخين» ۔ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا، ان کوسردی لگی، جب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ (مسـنـد الامام أحمد: 277/5، سنن أبي داود: 146، وسنده صحیح) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (169/1) نے صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ نیز جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے بھی اس کی سند کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ (درس تــر مـذی از تـقـی عثمانی: 337/1) دلیل نمبر ➍۔۔۔۔ «عن المغيرة بـن شـعبة، عـن أبيه قال: توضأ النبى صلى الله عليه وسلم، ومسح على الخفين، والعمامة» ۔ سيدنا مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنے موزوں اور پگڑی پر مسح کیا۔ (مسندالامام أحمد: 248/4، جامع الترمذي: 100) اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1514) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (1347) نے صحیح کہا ہے۔ نیز جناب تقی عثمانی صاحب نے اس کی سند کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ (درس ترمذی از تقی: 337/1) امام تر مذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیدنا مغیرہ بن شعبہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ بہت سے اہل علم صحابہ کرام کا یہ قول ہے۔ ان میں سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا انس رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔ امام اوزاعی، امام أحمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہو یہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پگڑی پر مسح کیا جاسکتا ہے۔ (جامع الترمذی: تحت حدیث: 100) سلف کے چند آثار بھی ملاحظہ فرمائیں: عاصم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنی پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 182/1، مصنف عبدالرزاق: 189/1، وسنده صحیح) ابوغالب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوامامہ کو پگڑی پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ (مصنف ابن ابی شیبه: 21/1، الاوسط لا بن المنذر: 468/1، وسنده صحيح) امام ترمدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے جارود بن معاذ کو سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ میں نے وکیع بن جراح رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: پگڑی پر مسح کو حد بیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جائز قرار دیتی ہے۔ (جـامـع الترمذي، تحت حديث: 110، وسنده صحيح)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 150