ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی
۱؎ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا:
”اسے طاق بار غسل دو، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملا لینا
“، یا فرمایا:
”تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا
“، چنانچہ جب ہم
(نہلا کر) فارغ ہو گئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا:
”اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو
“۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں
۲؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا
۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی الله عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ام سلیم رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے،
۵- مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کر دیا جائے گا،
۶- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کر دیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
”اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو
“، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کر دیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں،
۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہو گا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے۔
● سنن النسائى الصغرى | 1882 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك |
● سنن النسائى الصغرى | 1886 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها بماء وسدر واغسلنها وترا ثلاثا أو خمسا أو سبعا إن رأيتن ذلك واجعلن في الآخرة شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه وقال أشعرنها إياه |
● سنن النسائى الصغرى | 1887 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك |
● سنن النسائى الصغرى | 1888 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن بماء |
● سنن النسائى الصغرى | 1890 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو سبعا أو أكثر من ذلك إن رأيتن قالت قلت وترا قال نعم واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فأعطانا حقوه وقال أشعرنها إياه |
● سنن النسائى الصغرى | 1891 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك |
● سنن النسائى الصغرى | 1894 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا ألقى إلينا حقوه وقال أشعرنها إياه |
● سنن النسائى الصغرى | 1895 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك |
● صحيح البخاري | 1257 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فنزع من حقوه إزاره وقال أشعرنها إياه |
● صحيح البخاري | 1254 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه فقال أشعرنها إياه |
● صحيح البخاري | 1259 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن بماء |
● صحيح البخاري | 1253 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فأعطانا حقوه فقال أشعرنها إياه تعني إزاره |
● صحيح البخاري | 1261 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا فإذا فرغتن فآذنني قالت فلما فرغنا ألقى إلينا حقوه فقال أشعرنها إياه |
● صحيح البخاري | 1263 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها بالسدر وترا ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه فضفرنا شعرها ثلاثة قرون وألقيناها خلفها |
● صحيح مسلم | 2168 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك |
● صحيح مسلم | 2173 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها وترا ثلاثا أو خمسا واجعلن في الخامسة كافورا أو شيئا من كافور فإذا غسلتنها فأعلمنني قالت فأعلمناه فأعطانا حقوه وقال أشعرنها إياه |
● جامع الترمذي | 990 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها وترا ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن واغسلنها بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه فقال أشعرنها به |
● سنن أبي داود | 3142 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك |
● سنن ابن ماجه | 1459 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 220 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا او اكثر من ذلك إن رايتن ذلك بماء وسدر، واجعلن فى الآخرة كافورا |
● بلوغ المرام | 436 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا او خمسا او اكثر من ذلك إن رايتن ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا او شيئا من كافور |
● سنن ابن ماجه | 1458 | نسيبة بنت كعب | اغسلنها ثلاثا او خمسا او اكثر من ذلك، إن رايتن ذلك بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا |
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1253
´میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا اور وضو کرانا`
«وحنط ابن عمر رضي الله عنهما ابنا لسعيد بن زيد وحمله وصلى ولم يتوضا , وقال ابن عباس رضي الله عنهما المسلم لا ينجس حيا ولا ميتا , وقال سعيد لو كان نجسا ما مسسته وقال النبي صلى الله عليه وسلم المؤمن لا ينجس» .
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے بچے (عبدالرحمٰن) کے خوشبو لگائی پھر اس کی نعش اٹھا کر لے گئے اور نماز پڑھی، پھر وضو نہیں کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا، زندہ ہو یا مردہ، سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر (سعید بن زید رضی اللہ عنہ) کی نعش نجس ہوتی تو میں اسے چھوتا ہی نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: Q1253]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
صحیح بخاری کا باب:
«8. بَابُ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ:»
8. باب: میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا اور وضو کرانا۔
باب میں غسل، وضو اور بیری کے پتوں کا ذکر ہے مگر حدیث میں صرف خوشبو اور نماز کا ذکر ہے۔ اس حدیث کے بقیہ الفاظ کو ابن ابی شیببہ نے روایت کیا ہے جس کا اشارہ یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ کو سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے مرنے کی خبر ملی۔ وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا۔ خوشبو لگائی اور گھر میں آ کر غسل کیا اور کہنے لگے میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔
لہٰذا یہاں سے بخوبی طور پر مناسبت ظاہر ہو رہی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے جب انہیں غسل دیا تو لازماً اس میں بیری کے پتے بھی ہوں گے اور وضو بھی کروایا ہو گا۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
مذکورہ بالا حدیث کے بعد والی حدیث جو ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں واضح طور پر بیری کے پتوں کا ذکر موجود ہے۔ ممکن ہے کہ پہلی روایت سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس روایت کے ضعف کی طرف ہو جس میں یہ ذکر ہے کہ جو غسل دے میت کو وہ بھی غسل کرے اور دوسری حدیث سے بیری کے پتوں کا جواز ثابت فرما رہے ہوں۔ «والله اعلم»
◈ ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وقصد البخاري بما صدر به الباب من أن المؤمن لا ينجس ان غسله ليس لكونه نجسًا ولذالك غسل بالماء والسدر مبالغة فى التنظيف . . . ثم الذى عليه جمهور العلماء أن غسل الميت لا يجب الغسل وحمله لا يوجب الوضوء وحديث ”من غسل ميتًا فليغتسل ومن حمله فليتوضا“ قد علمت كلام الحاكم انه مختلف فيه»
”امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد باب سے یہ ہے کہ مومن نجس نہیں ہوتا، اس کا غسل دینا اس کی نجاست کی وجہ سے نہیں ہے اور اسی طرح بیری کے پتوں سے غسل دینا یہ نظافت میں زیادتی کے لیے ہے۔۔۔ جمہور علماء اسی طرف گئے ہیں کہ جو میت کو غسل دے اس پر غسل نہیں ہے اور جو جنازے کو اٹھائے اس پر وضو واجب نہیں ہے اور جس حدیث میں ہے کہ مردے کو غسل دینے والا غسل کرے اور اٹھانے والا وضو کرے، یقیناًً اس میں امام حاکم رحمہ اللہ کا کلام مختلف فیہ ہے۔“
◈ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا الترجمة مشتملة على امور الاول: فى غسل الميت، هل هو فرض أو واجب أو سنة؟ . . .» [عمدة القاري: 63 ص 49]
یہ ترجمۃ الباب مشتمل ہے امور پر، پہلا میت کے غسل کے بارے میں کہ کیا وہ فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ہے؟ ہمارے اصحاب نے کہا کہ وہ واجب ہے، احیاء پر سنت اور اجماع کے مطابق ”شرح وجیز“ میں ہے کہ (میت کو) غسل دینا اور اس کی تکفین اور اس پر نماز پڑھنا فرض کفایہ ہے اجماع کے مطابق اور اسی طرح سے امام نووی (شارح مسلم) نے اجماع نقل کیا ہے کہ غسل فرض کفایہ ہے اور بعض نے امام نووی کے اس قول کا انکار کیا ہے اور اسے شدید ذہول قرار دیا ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب قائم فرمانا کئی امور پر مشتمل ہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غسل میت کو دینا اور ساتھ ہی ساتھ میت کو غسل دینے والے کے لیے کیا حکم ہے؟
◈ محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«كأنه أشار إلى رد ما ورد فى الغسل من غسل الميت ووضوء من حمله، وقد اختلف العلماء فى الغسل والوضوء كما ذكره الحافظان ابن حجر والعيني فى اثر ابن عمر الاتي» [الابواب والتراجم، ج3، ص167۔ 168]
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں گویا کہ اشارہ فرمایا ہے اور رد فرمایا ہے ان حضرات کا جو میت کے غسل دینے پر غسل اور میت کو اٹھانے پر وضو کو ضروری گردانتے ہیں۔ یقیناًً علماء کا میت کو غسل اور وضو دینے پر اختلاف ہے جس کا ذکر دونوں حافظوں نے فرمایا، ابن حجر اور علامہ عینی رحمہما اللہ نے اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جو آرہا ہے۔
فائدہ:
مردے کو غسل دینے پر غسل کرنے کے بارے میں بعض علماء کا یہ مؤقف بھی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے، ابوحفص بن شاھین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث نے منسوخ کر دیا کہ ”آپ پر غسل نہیں ہے جب آپ مردے کو نہلائیں۔ آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دھو لیں۔“ تفصیل کے لیے دیکھیے:
➊ [البدر المنير لابن الملقن، ج2، ص 524 تا 543]
➋ [العلل المتناهية، ج1، ص 377]
➌ [العلل للدارقطني، ج 2، ص146]
➍ [المجموع للنووي، ج2، ص 332]
➎ [الناسخ والمنسوخ لابن شاهين، رقم 28، 39]
➏ [الخلافيات للبيهقي، ج3، ص223]
➐ [البدر المنير لابن الملقن، ج4، ص 657 تا 660]
➑ [نيل الأوطار للشوكاني، ج1، ص 238]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 262
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 436
´خاتون میت کے سر کے بال تین حصوں میں تقسیم کر کے مینڈھیاں بناکر پیچھے ڈالنا`
”سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے تین یا پانچ مرتبہ، یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو . . .“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 436]
لغوی تشریح:
«وَنَحْنُ نُغَسّلُ ابْنَتَهُ» مشہور روایت کے مطابق یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی، حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ تھیں۔ ان کی وفات 8 ہجری کے آغاز میں ہوئی۔ ایک قول کے مطابق یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا ان دونوں کی وفات کے موقع پر حاضر تھیں۔ یہ صاحبہ فوت ہونے والی خواتین کو غسل دیا کرتی تھیں۔ امام ابن عبدالبر نے یہ بات بڑی پختگی اور وثوق نے نقل کی ہے۔
«إنْ رَاَيْتُنَّ ذٰلِك» اگر تم یہ سمجھو کہ صفائی کے لیے تین یا پانچ مرتبہ غسل دینے سے زائد کی ضرورت ہے تو زیادہ مرتبہ غسل دے سکتی ہو۔
«بِمَاءِ وَسِدْرِ» پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ، یہ «اِغْسِلْنَهَا» کے متعلق ہے، یعنی پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو۔
«فِي الْاَخِيرَةِ كَأفُورًا» راوی کو تردد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «كافور» کہا: یا «شَيْاً مَّنْ كَافُورِ» فرمایا۔ جمہور کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ آخری دفعہ پانی میں کافور یا کچھ کافور ملا لیا جائے۔ امام اوزاعی اور بعض علمائے احناف کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم ہے غسل کے بعد جسم پر کافور ڈال دینا۔ نسائی کی حدیث کے الفاظ «واجٰعَلَنَ فِي آخِر ذٰلِك كَافُورا» بظاہر اسی کے موید ہیں۔ [سنن نسائي، الجنائز، حديث: 1895]
«آزناهُ» «إيذان» سے صیغہ جمع متکلم ہے، یعنی ہم نے آپ کو خبر دی۔
«حقٰوهُ» ”حا“ مہملہ پر فتحہ اور کسرہ بھی جائز ہے اور ”قاف“ ساکن ہے۔ اس سے مراد تہند اور ازار ہے۔ اصل میں تو یہ تہبند باندھنے کی جگہ کو کہتے ہیں مگر مجازی طور پر ازار کے لیے بولا جاتا ہے۔
«أَشْعِرْنَهَا إيَّاهُ» اشعار سے امر کا صیغہ ہے، یعنی میرے اس تہبند کو کفن کے کپڑوں کے نیچے بطور شعار استعمال کرو۔ «شِعَار» اس کپڑے کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ آپ کے اس ارشاد کا مقصد ی یہ تھا آپ کی صاحبزادی کو اس سے برکت حاصل ہو۔
«اِبٌدَأنَ» آغاز کریں، ابتدا کریں۔
«بميامنها» میمنۃ کی جمع ہے، یعنی اس کی دائیں جانب سے۔
«فَضَفَّرْنَا شُعْرَهَا» «الضَّفٰر» سے مراد مینڈھی ہے، یعنی بالوں کو اس طرح بٹ دے کر ایک دوسرے میں داخل کرنا کہ وہ رسی کی مانند ہو جائیں۔
«ثَلَاثَهُ قُرُونِ» قرن کی جمع ہے۔ مینڈھیوں کو کہتے ہیں۔ یہ مینڈھیاں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت بنائی گئیں۔ [سبلاالسلام]
فوائد و مسائل:
➊ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ میت کو کم از کم تین مرتبہ غسل ضرور دینا چاہیے، البتہ بوقت ضرورت اگر زیادہ مرتبہ غسل دینے کی ضرورت محسوس ہو تو پھر پانچ یا سات مرتبہ، یعنی طاق عدد کا لحاظ رکھ کر غسل دینا چاہیے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غسل کا آغاز دائیں جانب کے اعضائے وضو سے کرنا چاہیے۔
➌ خاتون میت کے سر کے بال تین حصوں میں تقسیم کر کے مینڈھیاں بناکر پیچھے ڈال دیے جائیں۔ انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی صحیح ثبوت نہیں۔
➍ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا چاہیے۔ اور آخر میں کافور پانی میں ملا کر جسم پر ڈال دینا چاہیے یا جسم پر کافور مل دینا چاہیے۔
➎ کافور کے علاوہ خوشبو کا استعمال بھی جائز ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 436
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1458
´میت کو غسل دینے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم آپ کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں تین بار، یا پانچ بار، یا اس سے زیادہ اگر تم مناسب سمجھو تو پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو ۱؎، اور اخیر بار کے غسل میں کافور یا کہا: تھوڑا سا کافور ملا لو، جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر کرو“، لہٰذا جب ہم غسل سے فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا اور فرمایا: ”اسے جسم سے متصل کفن میں سب سے نیچے رکھو“ ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1458]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورت کو عورتیں غسل دیں اور مرد فوت ہوجائے تو اسے مرد ہی غسل دیں۔
البتہ خاوند کا بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو غسل دینا جائز بلکہ بہترہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1465، 1464)
(2)
بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیا جائے۔
اور اسی پانی سے میت کو غسل دیا جائے۔
اس طرح صفائی بہتر ہوتی ہے۔
یا آج کل صابن سے بھی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔
(3)
میت کے جسم پر ایک بار سے زیادہ پانی بہایا جائے۔
لیکن تعداد طاق ہو۔
(4)
کافور کی خوشبو کیڑے مکوڑوں کو دوررکھتی ہے۔
میت کے جسم پر آخری بار جو پانی بہایا جائے۔
اس میں کافور ڈال لینا چاہیے۔
(5)
رسول اللہ ﷺ کے لباس سے اوردوسری ایسی اشیاء سے جو نبی اکرمﷺ کے جسم اطہر سے مس ہوئی ہوں۔
برکت لینا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے یقینی ہو صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین نے کسی اورشخصیت سے تعلق رکھنے والی اشیاء کو تبرک کے طور پرمحفوظ نہیں کیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1458
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 990
´میت کو غسل دینے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے طاق بار غسل دو، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملا لینا“، یا فرمایا: ”تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا“، چنانچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہو گئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا: ”اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔“ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 990]
اردو حاشہ:
1؎:
جمہور کے قول کے مطابق یہ ابو العاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا تھیں،
ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں،
صحیح پہلا قول ہی ہے۔
2؎:
یعنی خالد،
منصور اور ہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔
3؎:
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دیناچاہئے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 990
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3142
´میت کو کیسے غسل دیا جائے؟`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) کا انتقال ہوا آپ ہمارے پاس آئے اور فرمایا: ”تم انہیں تین بار، یا پانچ بار پانی اور بیر کی پتی سے غسل دینا، یا اس سے زیادہ بار اگر ضرورت سمجھنا اور آخری بار کافور ملا لینا، اور جب غسل دے کر فارغ ہونا، مجھے اطلاع دینا، تو جب ہم غسل دے کر فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر دی، آپ نے ہمیں اپنا تہہ بند دیا اور فرمایا: ”اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو۔“ قعنبی کی روایت میں خالک سے مروی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازار کو۔ مسدد کی روایت میں ”رسول اللہ صلی اللہ ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3142]
فوائد ومسائل:
1۔
میت کو کم از کم تین بار غسل دینا مستحب ہے۔
اوراگر ضرورت ہو تو پانچ بنار یا س سے بھی زیادہ دیا جا سکتا ہے۔
2۔
غسل کے پانی میں بیری کے پتے ابال لئے جایئں تو بہتر ہے۔
اور ایسے ہی آخری بار میں کچھ کافور ملالینا بھی مستحب ہے۔
3۔
کسی مسلمان کے مستعمل کپڑے کو بطور کفن استعمال کرنا جائز ہے۔
مگر رسول اللہ ﷺ کی چادر بالخصوص متبر ک تھی۔
تاہم اس نیت سے کسی اور کا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3142