عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک
«عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا
«جدي» ۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا:
”تم اس کی قربانی خود کر لو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- وکیع کہتے ہیں: بھیڑ کا جذع، چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔
۳- عقبہ بن عامر سے دوسری سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور تقسیم کیے، ایک جذعہ باقی بچ گیا، میں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
”تم اس کی قربانی خود کر لو
“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4384
´مسنہ اور جذعہ کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بکریاں دیں، صرف ایک سال کی بکری بچ رہی۔ اس کا ذکر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے ذبح کر لو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4384]
اردو حاشہ:
(1) امام اور حاکم وقت کو چاہیے کہ جب رعایا کے پاس قربانی کرنے کے لیے جانور نہ ہوں تو وہ قربانی کے جانور ان میں تقسیم کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم فرمائیں۔
(2) حدیث مبارکہ سے مسئلہ توکیل (کسی کو اپنا و کیل بنانا) بھی ثابت ہوتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم کرنے کے لیے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو وکیل تقسیم بنایا۔
(3) ایک بکری بھی قربانی کے لیے کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مقصد کی خاطر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک ایک بکری ہی تقسیم کرائی تھی۔
(4) جذعه حدیث میں لفظ عتود آیا ہے اور اس سے مراد بکری کا نوجوان بچہ ہے جو ماں کے بغیر چرتا پھرتا ہے اور ایک سال کا ہو جائے۔ جذعہ بھی اسی طرح کا ہوتا ہے، لہٰذا معروف لفظ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی ہے کہ دیگر صحیح احادیث میں بھی یہی لفظ ”جذعہ“ مذکور ہے جیسا کہ امام نسانی رحمہ اللہ نے خود بھی وہ احادیث بیان کی ہیں۔ سابقہ اور آنے والی احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(5) ”اس کی قربانی کردو“ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ تیرے علاوہ کسی سے کفایت نہیں کرے گا۔ معلوم ہوا انھیں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے خاص اجازت ملی، اس لیے اب کسی فرد کے لیے اس کا جواز نہیں، خواہ تنگ دست ہی کیوں نہ ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4384
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3138
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کر دیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قربانی تم کر لو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3138]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حدیث میں عتود کا لفظ ہےجس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
جو بچہ خود چرنے چگنے کے قابل ہوجائےاور ماں کا محتاج نہ رہے۔
(2)
نواب حیدالزمان رحمۃ اللہ علیہ نے عتود کے معنی ایک سال کا بکری کا بچہ کیے ہیں۔ (ترجمہ حدیث زیر مطالعہ)
ہم نے اپنے ترجمہ کو اسی کو اختیار کیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3138
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5084
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتھیوں میں تقسیم کرنے کے لیے بکریاں دیں، تاکہ وہ قربانی کر لیں تو ایک عتود بکری رہ گئی، اس نے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تم کر لو“ قتیبہ نے أصحابه کی جگہ صحابته [صحيح مسلم، حديث نمبر:5084]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عتود جمع اعتده:
بقول جوہری،
ایک سال کا بکری کا بچہ جس کو اگلی روایت میں جذعه کہا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5084
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5547
5547. سیدنا عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ میں قربانیاں تقسیم کیں تو ایک یکسالہ سیدنا عقبہ ؓ کے حصے میں آیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے حصے میں تو یکسالہ آیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کی قربانی کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5547]
حدیث حاشیہ:
یہ حکم خاص حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ ہی کے لیے تھا۔
اب حکم یہی ہے کہ قربانی کا جانور دو دانتا ہونا چاہیئے۔
حضرت ہشام بن عروہ مدینہ کے مشہور تابعین اور بکثرت روایت کرنے والوں میں سے ہیں، سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال فرمایا، رحمه اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5547
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2300
2300. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی تم قربانی کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2300]
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی وکالت ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو اس کی اپنے موکل سے تحقیق کرلے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2300
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5555
5555. سیدنا عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں کچھ بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام ؓ میں بطور قربانی تقسیم کر دیں۔ انہوں نے تقسیم کیں تو یکسالہ بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کو تم ذبح کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5555]
حدیث حاشیہ:
مگر ایسا کرنا کسی اور کے لیے کفایت نہیں کرے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5555
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2300
2300. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی تم قربانی کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2300]
حدیث حاشیہ:
ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے حوالے بکریاں کیں،قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ قربانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے،ان میں تقسیم کرنے کے لیے انھیں حکم دیا گیا۔
حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ ” بکری کے بچے کی تم قربانی کرلو“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کا تقسیم میں حصہ تھا اور انھیں تقسیم پر بھی مامور کیا گیا تھا،اس طرح یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ شریک کو وکیل بنایا جاسکتا ہے۔
(فتح الباري: 604/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2300
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2500
2500. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں بکریاں دس تاکہ وہ قربانی کے طور پر صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کرتے کرتے صرف بکری کا ایک سالہ بچہ باقی رہ گیا جس کاانھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذ کر کیا تو آپ نے فرمایا: ”صرف تمھیں اس کو بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2500]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بکریوں کی تقسیم جائز ہے اور ان میں عدل کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں چھوٹی بڑی کو الگ الگ نہ کیا جائے۔
بکریاں کچھ بڑی ہوتی ہیں، کچھ چھوٹی، اسی طرح کچھ موٹی تازی اور طاقتور ہوتی ہیں اور کچھ دبلی پتلی اور کمزور، یہ تمیز کیے بغیر انہیں تقسیم کیا جائے۔
ان میں عدد کا اعتبار ہو گا قیمت کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا بشرطیکہ فرق زیادہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عقبہ ؓ نے تھوڑے سے فرق کا اعتبار نہیں کیا، البتہ زیادہ فرق کا اعتبار ہو گا کیونکہ تقسیم کرتے وقت ان کے لیے صرف بکری کا ایک بچہ رہ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ صرف ان کو یہ بچہ بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت دی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بکریوں میں زیادہ فرق ہو تو تقسیم کے وقت اس کا اعتبار کرنا ہو گا، البتہ چھوٹی بڑی بکری کے فرق سے چشم پوشی کرنا ہو گی۔
(2)
واضح رہے کہ حقوق واجبہ اور قانونی تقسیم میں مساوات کا خیال رکھنا ہو گا، وہاں وزن یا قیمت سے تقسیم ہو گی کیونکہ ایسے حقوق میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی اور نہ کسی پر ظلم اور غبن ہی ہو سکتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2500
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5547
5547. سیدنا عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ میں قربانیاں تقسیم کیں تو ایک یکسالہ سیدنا عقبہ ؓ کے حصے میں آیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے حصے میں تو یکسالہ آیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کی قربانی کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5547]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں قربانیاں تقسیم کرنا، اس کے مؤکد ہونے کی دلیل ہے۔
(2)
شارح صحیح بخاری ابن منیر نے کہا ہے کہ قربانیوں کی تقسیم سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حصے داروں کا آپس میں گوشت تقسیم کرنا جائز ہے اور یہ خریدوفروخت کی قسم نہیں جیساکہ مالکی حضرات کا خیال ہے۔
ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہی ارادہ کیا ہو۔
(فتح الباری: 7/10)
ابن بطال نے کہا ہے کہ بڑے عالم دین کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب وہ عوام سے یہ اندیشہ محسوس کرے کہ وہ سنت کو فرض سمجھنے لگیں گے تو وہ سنت کو ترک کر دے تاکہ لوگوں پر ان کے دینی معاملات خلط ملط نہ ہو جائیں اور وہ فرض و نفل میں فرق کر سکیں۔
(عمدة القاري: 549/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5547
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5555
5555. سیدنا عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں کچھ بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام ؓ میں بطور قربانی تقسیم کر دیں۔ انہوں نے تقسیم کیں تو یکسالہ بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کو تم ذبح کرلو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5555]
حدیث حاشیہ:
(1)
عتود بکری کے ایک سالہ اس بچے کو کہتے ہیں جو سال بھر کھا پی کر خوب موٹا تازہ ہو گیا ہو۔
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا عنوان ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ ہونا چاہیے، البتہ بکری کے لیے دو دانتا ہونا ضروری ہے۔
(2)
مذکورہ ایک سالہ بچے کی اجازت صرف سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے لیے تھی جیسا کہ بیہقی میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تیرے بعد یہ رخصت کسی اور کے لیے نہیں ہے۔
“ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 270/9، رقم: 19536، و فتح الباري: 16/10) (3)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام وقت کو چاہیے کہ جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں بیت المال سے قربانیاں خرید کر دے۔
(عمدة القاري: 557/14)
آج کل سعودیہ اور کویت کے اہل خیر نے اس سنت کو زندہ کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ انہیں اپنے ہاں اجر عظیم دے۔
آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5555