الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
7. باب مَا جَاءَ فِي الْجَذَعِ مِنَ الضَّأْنِ فِي الأَضَاحِي
7. باب: بھیڑ کے جذع کی قربانی کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Jadha' Among Sheep For Slaughtering
حدیث نمبر: 1500
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة , حدثنا الليث , عن يزيد بن ابي حبيب , عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطاه غنما يقسمها على اصحابه ضحايا , فبقي عتود , او جدي , فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ضح به انت " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , قال وكيع , الجذع من الضان: يكون ابن سنة او سبعة اشهر , وقد روي من غير هذا الوجه , عن عقبة بن عامر , انه قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحايا , فبقي جذعة , فسالت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " ضح بها انت "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى أَصْحَابِهِ ضَحَايَا , فَبَقِيَ عَتُودٌ , أَوْ جَدْيٌ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ضَحِّ بِهِ أَنْتَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , قَالَ وَكِيعٌ , الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ: يَكُونُ ابْنَ سَنَةٍ أَوْ سَبْعَةِ أَشْهُرٍ , وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , أَنَّهُ قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا , فَبَقِيَ جَذَعَةٌ , فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " ضَحِّ بِهَا أَنْتَ "،
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي» ۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خود کر لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- وکیع کہتے ہیں: بھیڑ کا جذع، چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔
۳- عقبہ بن عامر سے دوسری سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور تقسیم کیے، ایک جذعہ باقی بچ گیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خود کر لو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوکالة 1 (2300)، والشرکة 12 (2500)، والأضاحي 2 (5547)، و 7 (5555)، صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1965)، سنن النسائی/الضحایا 13 (4384- 4386)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3138)، (تحفة الأشراف: 9955)، و مسند احمد (4/144، 149، 152، 156)، سنن الدارمی/الأضاحي 4 (1996) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: راوی کو شک ہو گیا ہے کہ «عتود» کہا یا «جدی» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3138)
حدیث نمبر: 1508
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن حجر , اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم , عن داود بن ابي هند , عن الشعبي، عن البراء بن عازب , قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم نحر , فقال: " لا يذبحن احدكم حتى يصلي " , قال: فقام خالي , فقال: يا رسول الله , هذا يوم اللحم فيه مكروه , وإني عجلت نسكي لاطعم اهلي , واهل داري , او جيراني , قال: " فاعد ذبحا آخر " , فقال: يا رسول الله , عندي عناق لبن وهي خير من شاتي لحم افاذبحها؟ قال: " نعم , وهي خير نسيكتيك , ولا تجزئ جذعة بعدك " , قال: وفي الباب , عن جابر , وجندب , وانس , وعويمر بن اشقر , وابن عمر، وابي زيد الانصاري، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم ان لا يضحى بالمصر حتى يصلي الإمام , وقد رخص قوم من اهل العلم لاهل القرى في الذبح إذا طلع الفجر , وهو قول ابن المبارك , قال ابو عيسى: وقد اجمع اهل العلم ان لا يجزئ الجذع من المعز , وقالوا: إنما يجزئ الجذع من الضان.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ , قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ نَحْرٍ , فَقَالَ: " لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُصَلِّيَ " , قَالَ: فَقَامَ خَالِي , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيهِ مَكْرُوهٌ , وَإِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي , وَأَهْلَ دَارِي , أَوْ جِيرَانِي , قَالَ: " فَأَعِدْ ذَبْحًا آخَرَ " , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُهَا؟ قَالَ: " نَعَمْ , وَهِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ , وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ بَعْدَكَ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ جَابِرٍ , وَجُنْدَبٍ , وَأَنَسٍ , وَعُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ , وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُضَحَّى بِالْمِصْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ , وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَهْلِ الْقُرَى فِي الذَّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ , وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُجْزِئَ الْجَذَعُ مِنَ الْمَعْزِ , وَقَالُوا: إِنَّمَا يُجْزِئُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا میں اس کو ذبح کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہتر ہے، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ (بچے) کی قربانی کافی نہ ہو گی ۲؎۔ اس باب میں جابر، جندب، انس، عویمر بن اشقر، ابن عمر اور ابوزید انصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تک امام نماز عید نہ ادا کر لے شہر میں قربانی نہ کی جائے،
۳- اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجر طلوع ہو جائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے،
۴- اہل علم کا اجماع ہے کہ بکری کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے، وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 3 (951)، و 5 (955)، و 8 (957)، و 10 (968)، و 17 (976)، و 23 (983)، والأضاحي 1 (5545)، و 8 (5556-5557) و 11 (5560) و 12 (5563)، والأیمان والندور 15 (6673)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1961)، سنن ابی داود/ الأضاحي 5 (2800)، سنن النسائی/العیدین 8 (1564)، والضحایا 17 (4400)، (تحفة الأشراف: 1769)، و مسند احمد (4/280، 297، 302، 303) وسنن الدارمی/الأضاحي 7 (2005) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔
۲؎: یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیونکہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں «مسنہ» (دانتا یعنی دو دانت والا) ہی جائز ہے، بکری کا «جذعہ» وہ ہے جو سال پورا کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہو اس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ رضی الله عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے، اگر کسی نے نماز عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی، اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیئے۔
۳؎: بھیڑ کے «جذعہ» (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے، جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی الله عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2495)، صحيح أبي داود (2495 - 2496)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.